بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

غصب شدہ چیزوں پر زکاۃ کی ادئیگی کا حکم


سوال

 میری بہن کو ایک  سال سے زیادہ ہو گیا ہےکہ   اسے طلاق ہوئی ہے،  مگر اس کا سامان اور سونے کے زیور اس کے سسرال والوں نے واپس نہیں کیے اور کورٹ میں انکار کر دیا ہے کہ ان کے  پاس نہیں ہیں تو کیا اس صورت میں زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے؟

جواب

 صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً بہن کے سسرال والے زیورات اور سامان کا انکار کررہے ہیں اور سائل اور اس کی بہن کے لیے ان اشیاء کو گواہوں سے ثابت کرنااور وصول کرنا ممکن نہیں ہے  تو ان زیورات  کی زکاۃ سائل کی بہن پر واجب نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولا في مال مفقود) وجده بعد سنين (وساقط في بحر) استخرجه بعدها--(ومغصوب لا بينة عليه) فلو له بينة تجب لما مضى إلا في غصب السائمة فلا تجب، وإن كان الغاصب مقرا كما في الخانية»

(مصادرة) أي ظلما (ثم وصل إليه بعد سنين) لعدم النمو. والأصل فيه حديث علي «لا زكاة في مال الضمار» وهو ما لا يمكن الانتفاع به مع بقاء الملك۔"

(‌‌كتاب الزكاة، ج:2، ص: 266، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ويشترط أن يتمكن من الاستنماء بكون المال في يده أو يد نائبه فإن لم يتمكن من الاستنماء فلا زكاة عليه وذلك مثل مال الضمار كذا في التبيين وهو كل ما بقي أصله في ملكه ولكن زال عن يده زوالا لا يرجى عوده في الغالب كذا في المحيط، ومن مال الضمار الدين المجحود والمغصوب إذا لم يكن عليهما بينة۔"

(كتاب الزكاة، الباب الأول في تفسيرها وصفتها وشرائطها، ج:1، ص: 174، ط:رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101050

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں