بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھریلو اختلاف کی وجہ سے بیوی کا الگ گھر کا مطالبہ کرنا


سوال

میری شادی کو ڈیڑھ سال ہونے والا ہے ۔ میرا شوہر کسی اور شہر میں جاب کرتے ہیں 2 سے 3 مہینے بعد گھر آتے ہیں ۔ میں اپنے سسرال رہتی ہوں ۔ میرا سسرال اچھا ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ میری نندیں میری عزت نہیں کرتی ،سارا دن خاموش رہتی ہوں ،کہ کہیں کوئی بات انکو بری نہ لگے ،یا میں جواب دوں ساس اور سسر کا دل نہ دکھے ،کہ میں نے ان کی بیٹی کو آگے سے جواب دیا ہے اور یقین مانیں جس دن میں نے جواب دے دیا ،میں بری بن جاؤں گی ،کیونکہ میری ساس اپنی بیٹیوں کی باتوں میں آ کر کبھی کبھی بات نہیں کرتی ،تب میں ان سے بات کرتی ہوں ،اور اس لئے کہ گھر کا ماحول خراب نہ ہو ۔ میری ساس غلط صحیح نہیں دیکھتی بس اپنی بیٹیوں کا ساتھ دیتی ہیں ۔ میں یہاں شوہر کہ بغیر ایک ذہنی کوفت سے گزر رہی ہوتی ہوں ،میری ایک نند شادی شدہ ہے، جب یہاں ہمارے گھر آ کے رہے مجھ پر تہمت اور الزام تک لگائے ،بعد میں اللہ نے میرا ساتھ دیا وہ خود مان گئیں کہ یہ سب جھوٹ تھا ۔ اسی نندنے مجھے گھر سے نکل جانے کو کہا لیکن میں خاموشی سے اپنے کمرے میں چلی گئی، اور جب شوہر گھر آئے تب بتایا، پہلے فون کر کے نہیں بتایا کہ وہ پریشان نہ ہوں ،میری نندوں نے پلان بنایا ہوا ہے کہ وہ میرے شوہر اور میری ساس کو میرے خلاف کریں گی یہ خود سنا میں نے اور ساس کو میرے خلاف کر چکی کسی حد تک ، مجھے ڈر لگتا ہے یہ ساتھ رہیں اور میرا گھر نہ خراب کریں فسادی دماغ ہے انکا، ایسا نہیں کہنا چاہیے پر مسئلہ جاننے کے لئے ضروری تھا آپ کو تفصیل کا پتا ہو ۔یہ سب شوہر کو بھی بتا کر پریشان نہیں کرتی جب وہ گھر آتے ہیں تب سرسری بتا دیتی ہوں کیونکہ میرا مقصد والدین کے خلاف کرنا نہیں ہوتا بلکہ یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ مجھے عزت اور سکون چاہیے ،کیونکہ میں آگے سے جواب نہیں دیتی ،کھل کے بول نہیں سکتی ،گھر کےکام کر کے اپنے کمرے میں رھتی ہوں ،خود کو قید میں محسوس کرتی ہوں ۔ جو عورتیں آگے اپنے دفاع میں جواب دے دیتی ہیں وہ اپنی بھڑاس نکال کر مطمئن ہو جاتی ہیں، پر میں خاموش رہ کی گھٹن محسوس کرتی ہوں ،کیونکہ مجھے لڑائی سے بہت ڈر لگتا ہے۔  میں اپنے شوہر کے ساتھ جہاں جاب ہے وہاں شفٹ ہو رہیں ہوں ،میں چاہتی ہوں کہ میں وہاں اپنے شوہر کے ساتھ سکون اور عزت کے ساتھ زندگی گزاروں۔ اور میرے سسرال والے یہاں خوش رہیں ہم وہاں ۔ میں کبھی نہیں چاہوں گی کی میرا شوہر اپنے والدین سے ہاتھ اٹھا لے شادی سے پہلے بھی وہ وہاں رہتے تھے اور دو بیٹیاں اور بیٹوں کے ساتھ یہاں آبائی شہر میں رہتے ہیں ۔ دو بیٹے ساتھ ہوتے ہیں پر سارا گھر کا خرچہ میرے شوہر دیتے ہیں ۔ اور میں کبھی نہیں اس سے روکوں گی جب جیسے اپنے والدین کی خدمت کریں میں بھی اب بھی کرتی بعد میں بھی کرتی رہوں گی جب جب موقع ملا مگر مسلسل ساتھ رہنا میرے بس سے باہر کی بات ہے ۔ میرا شوہر شادی سے پہلے بھی خرچہ دے رہے ہیں اور اب بھی کرتے ہیں اور بعد میں بھی کرتے رہیں گےیہ انکا فرض ہے مجھے اس سے کوئی اعتراض نہیں ۔ کیا میرا ان حالات میں الگ ہونا گناہ یا ایک بیٹی کو والدین سے جدا کرنا اور قطع تعلقی میں تو نہیں آ جائے گا؟ مجھے ڈر لگتا ہے کہیں میرا اگر عمل غلط ہو تو کل کو میرے سامنے نہ آ جائے میری آخرت بھی اچھی رہے بس میں روز روز کہ جھگڑے سے بچنے اور اس نفرت اور بغض والے ماحول میں نہیں رہ سکتی اس  لیے الگ رہنا مناسب سمجھتی ہوں ۔ اور میری اولاد نہیں ہے آپ سے دعا کہ درخواست ہے ۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو جزائے خیر عطا فرمائے آمین!

جواب

شریعتِ مطہرہ نے شوہر کو  اپنی  بیوی کے نان و نفقہ  کی ادائیگی اور  اسے علیحدہ  رہائش فراہم کرنے کا پابند کیا ہے، تاہم  رہائش سے مراد ایسا کمرہ  فراہم کرنا ہے، جس میں شوہر کے گھر والوں کی مداخلت نہ ہو،  نیز  اگر بیوی شوہر کے گھر والوں کے ساتھ  مشترکہ طور پر کھانا پکانا اور کھانا نہیں چاہتی تو  الگ پکانے کی سہولت فراہم کرنا بھی ضروری ہے، یہ سہولت والدین کے ساتھ  ایک ہی گھر میں فراہم کردے تب بھی ذمہ داری پوری ہوجاتی ہے، الگ جگہ پر گھر لے کر دینا ضروری نہیں، باقی اگر شوہر الگ گھر میں ٹھہرانے کی استطاعت رکھتا ہے اور اس میں مصلحت سمجھتا ہے تو اس کی بھی گنجائش ہے، تاہم اس قسم کے مطالبہ کا حق بیوی کو نہیں۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کے شوہر کی استطاعت اتنی  ہے کہ وہ آپ کےلیے مستقل طورپر علیٰحدہ  گھر کا انتظام کرسکتاہے اورسائلہ استفتاء میں درج وجوہات کی وجہ سے الگ ہوناچاہتی ہے تو اس میں گناہ کی کوئی بات نہیں ہے۔دونوں  علیٰحدہ رہائش اختیارکرسکتےہیں ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے: 

"تجب السكنى لها عليه في بيت خال عن أهله و أهلها إلا أن تختار ذلك كذا في العيني شرح  الكنز."

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الثاني في السكني، ١/ ٥٥٦، ط: دار الفكر)

فتاوى شامي میں ہے:

"إن أمكنه أن يجعل لها بيتًا على حدة في داره ليس لها غير ذلك". 

(مطلب في مسكن الزوجة 3/601، ط: سعيد)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"السكنى للزوجة على زوجها واجبة، وهذا الحكم متفق عليه بين الفقهاء؛ لأن الله تعالى جعل للمطلقة الرجعية السكنى على زوجها. قال تعالى: {أسكنوهن من حيث سكنتم من وجدكم} (١) فوجوب السكنى للتي هي في صلب النكاح أولى. ولأن الله تعالى أوجب المعاشرة بين الأزواج بالمعروف، قال تعالى: {وعاشروهن بالمعروف} (٢) ومن المعروف المأمور به أن يسكنها في مسكن تأمن فيه على نفسها ومالها، كما أن الزوجة لا تستغني عن المسكن؛ للاستتار عن العيون والاستمتاع وحفظ المتاع. فلذلك كانت السكنى حقا لها على زوجها، وهو حق ثابت بإجماع أهل العلم..........فالجمع بين الأبوين والزوجة في مسكن واحد لا يجوز (وكذا غيرهما من الأقارب) ولذلك يكون للزوجة الامتناع عن السكنى مع واحد منهما؛ لأن الانفراد بمسكن تأمن فيه على نفسها ومالها حقها، وليس لأحد جبرها على ذلك. وهذا مذهب جمهور الفقهاء من الحنفية والشافعية والحنابلة." 

(السکنی , الاحکام المتعلقة بالسکنی جلد 25 ص: 108 , 109 ط: وزارۃ الاوقاف و الشئون الاسلامیة ۔ الکویت)

بہشتی زیور میں ہے:

” گھر میں سے ایک جگہ عورت کو الگ کردے کہ وہ اپنا مال اسباب حفاظت سے رکھے اور خود اس میں رہے سہے اور اس کی قفل کنجی اپنے پاس رکھے، کسی اور کو  اس میں دخل نہ ہو، فقط عورت ہی کے قبضے میں رہے تو بس حق ادا ہوگیا، عورت کو اس سے زیادہ کا دعوی نہیں ہوسکتا، اور یہ نہیں کہہ سکتی کہ پورا گھر میرے لیے الگ کردو‘‘۔

(بہشتی زیور، بعنوان: رہنے کے لیے گھرملنے کا بیان، ص:333)

حضرت تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"چوں کہ شرعاً عورت کوحق حاصل ہے کہ شوہرکے ماں باپ سے علیحدہ رہے،اوراگروہ اپنے حق جائزکامطالبہ کرے گی توشوہرپراس کے حق کاادا واجب ہوگا۔اورواجب کاترک معصیت ہے،اورمعصیت میں کسی کی اطاعت نہیں،لہذا اس انتظام کونہ بدلیں۔"

(امدادالفتاویٰ،2/525)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401100192

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں