میں نے ایک گھر انویسٹمنٹ کی نیت سے لیا تھا اور اب وہ میں نے کرائے پر دیا ہوا ہے ،اب آیا اس بنگلے کی مالیت پر زکوۃ واجب ہوگی یا کرائے پر؟
صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ گھر خریدتے وقت آگے فروخت کرنے کی نیت کی تھی تو مارکیٹ ویلیو کے اعتبار سے اس گھر کی زکاۃ ادا کرنا لازم تھا، اور اب چوں کہ اسے کرایہ پر اٹھا دیا ہے تو اب سے اس کی ویلیو پر زکاۃ لازم نہ ہوگی، تاہم جو کرایہ وصول ہو رہا ہے اگر وہ نصاب کے بقدر ہو یا سائل پہلےسے صاحبِ نصاب ہو تو سالانہ کرایہ کی رقم سے بھی زکات نکالنا لازم ہوگا۔
الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے :
"المطلب الأول ـ زكاة العمارات والمصانع ونحوها :
اتجه رأس المال في الوقت الحاضر لتشغيله في نواحٍ من الاستثمارات غير الأرض والتجارة، وذلك عن طريق إقامة المباني أو العمارات بقصد الكراء، والمصانع المعدة للإنتاج، ووسائل النقل من طائرات وبواخر (سفن) وسيارات، ومزارع الأبقار والدواجن وتشترك كلها في صفة واحدة هي أنها لا تجب الزكاة في عينها وإنما في ريعها وغلتها أو أرباحها."
(ج:3،ص:292،ط:دارالفکر، دمشق)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144409100202
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن