بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر والوں کے کہنے پر بیوی کو تین طلاقیں دینا


سوال

میں نے گھر والوں سے چھپ کر ایک مطلقہ سے نکاح کیا،  جب گھر والوں کو معلوم ہوا تو  انہوں نے مجھ سے زبردستی طلاق دلوائی،  میں نے دو طلاقیں دیں تو تیسری طلاق بھی زبردستی کہلوائی۔ اب میں دوبارہ رجوع کرنا چاہتا ہوں،  مہربانی کرکے کوئی راستہ بتادیں،  ورنہ اس عورت کی زندگی تباہ ہوجائے گی!

جواب

شریف  اور  مہذب گھرانے کا دستور ہے کہ لڑکی اور لڑکے  کے والدین نکاح کے تمام معاملات سنبھالتے ہیں، جب کہ دوسری جانب شریعت نے والدین کو اس بات کا پابند بنایا ہے کہ وہ بالغ لڑکی  اور لڑکے سے نکاح کی اجازت لیں، جب تک دونوں اجازت نہ دیں تو  نکاح منعقد نہیں ہوگا۔

شریعت نے لڑکے اور لڑکی کو اپنی رائے کے استعمال کا حق دیا ہے،  لیکن اس میں خاندان والوں کی عزت کا پاس رکھنابھی ضروری ہے،اولاً تو یہ طریقہ جو آپ نے اختیار کیا مناسب نہیں تھا،اگرچہ باہمی رضامندی کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں نکاح کرنے سے نکاح منعقد ہوجاتاہے۔

نکاح ہوجانے کے بعد گھر والوں کو اعتماد میں لے لینا چاہیے تھا اور انہیں طلاق کی قباحت اورناپسندیدگی بتلاکر اس رشتہ کے قائم رکھنے پر آمادہ کیاجاتا، اور اگر کوئی معقول و معتبر وجہ نہیں تھی تو آپ کے گھر والوں کا طلاق کا مطالبہ درست نہیں تھا، لیکن   گھر  بسانے  کے بجائے جب آپ نے گھر والوں کے اصرار پر اپنی بیوی کو تینوں طلاقیں دے دی ہیں تو شرعی طور پر تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں ،اور بیوی حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے۔ تین طلاق کے بعد رجوع کرنے کی اجازت نہیں ہے، عدت گزار کر عورت دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے۔

البتہ اگر عدت گزار کر عورت دوسری جگہ نکاح کرلے  اور دوسرا شوہر بیوی کے حقوق ادا کرے، اور پھر دوسرے شوہر کا انتقال ہوجائے یا وہ  از خود طلاق دے دے اور اس سے بھی عدت گزر جائے تو پہلے شوہر سے شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے تقرر کے ساتھ دوبارہ نکاح کی اجازت ہوگی۔ لیکن دوسری جگہ نکاح کرانے میں آپ کا کردار ادا کرنا درست نہیں ہوگا، اسی طرح نکاح کے وقت ہی طلاق سے مشروط کرکے نکاح کرنا بھی پسندیدہ نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"( فنفذ نكاح حرة مكلفة لا ) رضا ( ولي ) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا ( وله ) أي للولي (إذا كان عصبةً) ولو غير محرم كابن عم في الأصح، خانية. وخرج ذوو الأرحام والأم وللقاضي (الاعتراض في غير الكفء) فيفسخه القاضي ويتجدد بتجدد النكاح ( ما لم ) يسكت حتى ( تلد منه)".

 ( الدر المختار مع رد المحتار، كتاب النكاح ، باب الولي ۳/۵۵ و ۵٦ ط: سعيد)

"يستحب للمرأة تفويض أمرها إلى وليها كي لاتنسب إلى الوقاحة، بحر. وللخروج من خلاف الشافعي في البكر، وهذه في الحقيقة ولاية وكالة ( أيضاً)

فتاوی شامی" میں ہے:

 "(قوله: ثلاثة متفرقة) و كذا بكلمة واحدة بالأولي... و ذهب جمهور الصحابة و التابعين و من بعدهم من ائمة المسلمين الي أنه يقع الثلاث".

( كتاب الطلاق : مطلب طلاق الدور ٣/٣٣٣ ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110201389

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں