بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مروجہ غیر سودی بینکاری میں جواز کے قول پر عمل کرسکتے ہیں یا نہیں ؟


سوال

بہت سے علمائے  کرام فتوی دیتے ہیں کہ میزان سیونگ اکاؤنٹ کا منافع حلال اور جائز ہے اور چند علماء کرام حلال اور جائز نہیں سمجھتے ۔تو کیا جب ایک مسئلے پر دو رائے موجود ہوں تو کسی بھی ایک رائے پر عمل کرنا جائز ہوگا؟ جو حضرات جائز کہتے ہیں کیا ان کے فتوے پر عمل کر سکتے ہیں اور اس منافع کو جائز سمجھتے ہوئے لے سکتے ہیں؟

جواب

مروجہ غیر سودی بینکاری   بشمول میزان بینک کے  حوالے  سے علماء کا اختلاف راجح مرجوح کا اختلاف نہیں، بلکہ یہ اختلاف، حلال اور حرام کا اختلاف ہے،  بہت سے مقتدر محقق مفتیانِ کرام اسے حرام قرار دیتے ہیں، ایسے مسئلہ میں بہرحال حرام کو مقدم رکھا جاتا ہے۔جب کہ  مذکورہ مسئلہ میں عدمِ جواز  کی رائے کا  دلائل کے اعتبار سے قوی ہونا  اور حنفیہ کے اصولوں کے مطابق ہونا نیز حرمت اور جواز کے اختلاف کے موقع پر احتیاط کے پیشِ نظر حرمت کے پہلو پر عمل کرنا ہی راجح ہے۔

بالفرض حلال کہنے والوں کے موقف کو تسلیم کیا جائے تو مروجہ غیر سودی نظام زیادہ سے زیادہ مباح عمل ہے، دوسری طرف حرام میں وقوع کا امکان ہے، مباح کو اختیار کرنے کی بجائے حرام سے بچنا فرض ہے۔

الفروق للقرافی میں ہے:

"فان اختلف العلماء فی فعل هل هو مباح او حرام فالورع الترک".

( الفرق السادس والعشرون والمئتان من الفروق، ج:4، ص:27، ط:عالم الکتب)

 الأشباہ و النظائر لابن نجیم میں ہے:

"ما اجتمع محرم ومبيح إلا غلب المحرم "۔

والعبارة الأولى لفظ حديث أورده جماعة {ما اجتمع الحلال والحرام إلا غلب الحرام الحلال} .

قال العراقي: لا أصل له وضعفه البيهقي، وأخرجه عبد الرزاق موقوفا على ابن مسعود رضي الله عنه، وذكره الزيلعي شارح الكنز في كتاب الصيد مرفوعا. فمن فروعها ما إذا تعارض دليلان أحدهما يقتضي التحريم، والآخر الإباحة قدم التحريم، وعلله الأصوليون بتقليل النسخ؛ لأنه لو قدم المبيح للزم تكرار النسخ لأن الأصل في الأشياء الإباحة، فإذا جعل المبيح متأخرا كان المحرم ناسخا للإباحة الأصلية، ثم يصير منسوخا بالمبيح.

(ص:93، ط: دار الکتب العلمیۃ بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100650

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں