بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر میں بچوں کے ساتھ جماعت، اتصالِ صفوف کا حکم


سوال

1. ناروے میں مساجد بند کردی گئیں ہیں،تو ان حالات میں گھر پر اذان دے کر ساتھ بچوں کو کھڑا کر کے جماعت کروا سکتے ہیں؟

2.صفوں میں اتصال کہاں تک باقی رہتا ہے کہ کتنا فاصلہ آجائے تو اتصال ٹوٹ جاتا ہے؟اتصال اگر سامنے صفوں کی صورت میں سے ہو تو کہاں تک باقی رہتا ہے اور اگر دائیں بائیں جانب سے ہو صرف تو کہاں تک باقی رہتا ہے؟

جواب

1۔ اگر شرعی عذر کی وجہ سے مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا ممکن نہ ہو (جیساکہ موجودہ حالات میں کرونا وائرس کی وجہ سے بعض ممالک میں مساجد بالکلیہ بند کردی گئی ہیں) تو  گھر  وغیرہ میں جہاں ممکن ہوسکے جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کی پوری کوشش کیجیے،  ایسی صورت میں تنہا نماز پڑھنے کے بجائے گھر میں اپنی  بیوی اور  بچوں کے ساتھ  باجماعت نماز ادا کرنا افضل ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ متعلقہ انتظامیہ کو حکمت کے ساتھ اسلامی اَحکام سے آگاہ کریں، اور کسی نہ کسی درجے میں مساجد کو آباد رکھنے کی کوشش کریں، خواہ وہ محدود تعداد میں ہوں۔

باجماعت نماز میں صف بنانے کا طریقہ یہ ہے کہ امام (مرد) خود آگے کھڑا ہوجائے،  اگر اس کے ساتھ ایک مرد یا ایک بچہ ہو تو وہ امام کے دائیں طرف تھوڑا سا پیچھے کھڑا ہو، اور اگر ایک ہی عورت مثلاً بیوی ہو تو وہ پچھلی صف میں کھڑی ہو۔ اور اگر امام کے علاوہ دو مرد یا بچے ہوں تو وہ پچھلی صف میں کھڑے ہوں، اور اس کے بعد اگر کوئی عورت یا کئی خواتین ہوں تو پہلی  صف میں بچے کھڑے ہوں اوراس سے پچھلی صف میں بیوی یا گھر کی دوسری خواتین کھڑی ہوں۔

اگر آپ کے ہاں مساجد میں اذان دی جارہی ہے تو گھر میں جماعت کرواتے وقت پنج وقتہ نمازوں کے لیے اگرچہ اذان دینا لازم نہیں، بلکہ محلہ کی اذان کافی ہے، لیکن افضل طریقہ یہ ہے کہ گھر میں بھی اذان اور اقامت دونوں یا کم از کم اقامت کے ساتھ ہی جماعت کروائی جائے۔ اقامت اور امامت مرد کو ہی کرنی چاہیے، اور اذان دینی ہو تو بھی مرد یا سمجھ دار بچہ دے۔ اور اگر آپ کے ہاں مساجد بالکل بند ہیں، وہاں اذان بھی نہیں دی جارہی تو آپ کو گھر میں اذان اور اقامت دونوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔

2. صفوں کے اتصال کے حوالے سے آپ کا سوال عام ہے، بظاہر آپ گھر میں صفوں کے اتصال کے حوالے سے پوچھنا چاہ رہے ہیں، تاہم یہاں مسجد اور گھر دونوں اعتبار سے اتصالِ صفوف کا حکم درج کیا جاتاہے:

باجماعت نماز میں اقتدا کے درست ہونے کے لیے  امام اور مقتدی کی جگہ  کا متحد ہونا شرط ہے خواہ حقیقتاً متحد ہوں یا حکماً، مسجد ، صحنِ مسجد اور فناءِ مسجد  یہ تمام جگہ  بابِ اقتدا میں متحد ہیں، لہٰذا مسجد ، صحنِ مسجد اور فناءِ مسجد میں  اگر امام اور مقتدی، یا مقتدیوں کی صفوں کے درمیان دو صفوں کی مقدار  یا اس سے زیادہ فاصلہ ہو   تب  بھی صحتِ اقتدا سے مانع نہیں ہوگا، اور نماز ادا ہوجائے گی، مگر بلاضرورت  فاصلہ چھوڑنا مکروہِ تحریمی ہے۔البتہ اگر امام اور مقتدی اور دوسری صفوں کے درمیان شارع عام ہو ( یعنی ایسا کشادہ راستہ ہو  جہاں سے گاڑی وغیرہ گزرسکے) یا ایسی وسیع نہر ہو جس سے چھوٹی کشتی گزرسکے، یا حوض شرعی (دہ در دہ)  ہو تو یہ اشیاء (شارع عام، وسیع نہر، حوضِ شرعی) مسجد کے اندر بھی اتصال سے مانع ہیں، اس لیے ان رکاوٹوں کے ہوتے ہوئے اقتداصحیح نہیں ہوگی۔نیز دائیں بائیں جانب سے بھی ایک ہی صف ہو تو مل کر کھڑا ہونا اور کندھے سے کندھے کا ملا ہواہوناضروری ہے،یعنی مقتدیوں کو جماعت کی نماز میں مل مل کر کھڑا ہونا چاہیے،جماعت کی نماز میں  دو شخصوں کے درمیان خلا چھوڑنا درست نہیں ہے، احادیثِ مبارکہ میں مل کر کھڑے  ہونا اور صف درست اور مکمل کرنے کی بڑی تاکید آئی ہے۔صفوں کے درمیان خالی جگہ چھوڑ کر فاصلے سے کھڑے ہونے سے نماز تو ہوجائے گی، مگر سنت کے خلاف ہونے کی وجہ سے مکروہ ہوگی۔اس لیے صفوں کا متصل رکھنا اور مل مل کر کھڑا ہونا ضروری ہے۔

البتہ موجودہ حالات میں اگر حکام کی جانب سے مسجد میں باجماعت نماز میں اس طرح مل کر کھڑے ہونے کی اجازت نہ دی جائے تو باجماعت نماز میں دو افراد کے درمیان کسی قدر فاصلے سے نماز اداکی جائے تو نماز اداہوجائے گی۔

مسجد سے باہر یا گھروں میں بھی باجماعت نماز کی صورت میں صفوں کا اتصال لازمی ہے، مسجد سے باہر  (اگر پندرہ بائے پندرہ فٹ یا اس سے زیادہ بڑا حجرہ  یا جگہ ہو تو) نماز کے درمیان دو صفوں کے برابر یا اس سے زیادہ فاصلہ رہ جائے یعنی پچھلی صفیں اگلی صفوں سے اتنی جدا ہوجائیں  کہ ان کے درمیان دو صف یا اس سے زیادہ کا فاصلہ ہو تو اس صورت میں ان تمام لوگوں کی نماز درست نہ ہوگی جو فاصلے کے بعد صف بناکر کھڑے ہوں۔

لہذا مساجد کے علاوہ جگہوں میں یا گھروں میں صف بندی میں اتصال کا خیال رکھنا لازم ہے،مجبوری کی صورت میں درمیان میں ایک صف برابر جگہ خالی رہ جائے تو نماز درست ہوجائے گی، البتہ دو صفوں کے برابر یازیادہ جگہ خالی رہی تو  پیچھے والوں کی نماز درست نہ ہوگی۔ البتہ اگردرمیان میں دیوار حائل ہو  اور دیوار میں موجود دروازہ کھلا ہو اور امام کے انتقالات (ایک رکن سے دوسرے رکن کی طرف منتقل ہونے) سے مقتدی باخبر رہیں تو ان مقتدیوں کی نماز درست ہے۔

مشکوۃ شریف  میں ہے :

" عَنْ اَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْه وَسَلَّمَ: رَصُّوْا صُفُوْ فَکُمْ وَقَارِبُوْ بَیْنَها وَحَاذُوْ بِالْأَعْنَاقِ فَوَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِه إِنِّيْ لَأَرَیَ الشَّیْطَانَ یَدْخُلُ مِنْ خلل الصَّفِّ کَأَنَّهَا الْحَذَفُ. (رواه أبوداؤد)".

ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اپنی صفیں ملی ہوئی رکھو (یعنی آپس میں خوب مل کر کھڑے ہو) اور صفوں کے درمیان قرب رکھو (یعنی آپس میں خوب مل کر کھڑے ہو) اور صفوں کے درمیان قرب رکھو (یعنی دو صفوں کے درمیان اس قدر فاصلہ نہ ہو کہ ایک صف اور کھڑی ہو سکے ) نیز اپنی گردنیں برابر رکھو (یعنی صف میں تم میں سے کوئی بلند جگہ پر کھڑا نہ ہو، بلکہ ہم وار  جگہ پر کھڑا ہو تاکہ سب کی گردنیں برابر رہیں) قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، میں شیطان کو بکری کے کالے بچے کی طرح تمہاری صفوں کی کشادگی میں گھستے دیکھتا ہوں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 553):

"ولنا أنه عليه الصلاة والسلام كان خرج ليصلح بين قوم فعاد إلى المسجد وقد صلى أهل المسجد فرجع إلى منزله فجمع أهله وصلى.

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 395):

(وكره تركهما) معًا (لمسافر) ولو منفردًا (وكذا تركها) لا تركه لحضور الرفقة (بخلاف مصل) ولو بجماعة (وفي بيته بمصر) أو قرية لها مسجد؛ فلايكره تركهما إذ أذان الحي يكفيه".

"(قوله: في بيته) أي فيما يتعلق بالبلد من الدار والكرم وغيرهما، قهستاني. وفي التفاريق: وإن كان في كرم أو ضيعة يكتفي بأذان القرية أو البلدة إن كان قريبًا وإلا فلا. وحد القرب أن يبلغ الأذان إليه منها اهـ إسماعيل. والظاهر أنه لايشترط سماعه بالفعل، تأمل. (قوله: لها مسجد) أي فيه أذان وإقامة، وإلا فحكمه كالمسافر صدر الشريعة. (قوله: إذ أذان الحي يكفيه)؛ لأن أذان المحلة وإقامتها كأذانه وإقامته؛ لأنّ المؤذن نائب أهل المصر كلّهم كما يشير إليه ابن مسعود حين صلى بعلقمة والأسود بغير أذان ولا إقامة، حيث قال: أذان الحي يكفينا، وممن رواه سبط ابن الجوزي، فتح: أي فيكون قد صلى بهما حكمًا، بخلاف المسافر فإنه صلى بدونهما حقيقةً وحكمًا؛ لأنّ المكان الذي هو فيه لم يؤذن فيه أصلاً لتلك الصلاة، كافي. وظاهره أنه يكفيه أذان الحي وإقامته وإن كانت صلاته فيه آخر الوقت، تأمل، وقد علمت تصريح الكنز بندبه للمسافر وللمصلي في بيته في المصر، فالمقصود من كفاية أذان الحي نفي الكراهة المؤثمة. قال في البحر: ومفهومه أنه لو لم يؤذنوا في الحي يكره تركهما للمصلي في بيته، وبه صرح في المجتبى، وأنه لو أذن بعض المسافرين سقط عن الباقين كما لايخفى".

فتاوی شامی میں ہے: 

"والصغرى ربط صلاة المؤتم بالإمام بشروط عشرة: نية المؤتم الاقتداء، واتحاد مكانهما وصلاتهما. (قوله: واتحاد مكانهما) فلو اقتدى راجل براكب أو بالعكس أو راكب براكب دابة أخرى لم يصح لاختلاف المكان؛ فلو كانا على دابّة واحدة صحّ لاتحاده، كما في الإمداد، وسيأتي". (1 / 549، 550، باب الإمامة، ط: سعید)

وفیه أیضًا:

"(ويمنع من الاقتداء) صفّ من النساء بلاحائل قدر ذراع أو ارتفاعهنّ قدر قامة الرجل، مفتاح السعادة أو (طريق تجري فيه عجلة) آلة يجرها الثور (أو نهر تجري فيه السفن) ولو زورقًا ولو في المسجد (أو خلاء) أي فضاء (في الصحراء) أو في مسجد كبير جدًّا، كمسجد القدس (يسع صفّين) فأكثر إلا إذا اتّصلت الصفوف فيصح مطلقًا. 

(قوله: تجري فيه عجلة) أي تمر، وبه عبر في بعض النسخ. والعجلة بفتحتين. وفي الدرر: هو الذي تجري فيه العجلة والأوقار اهـ وهو جمع وقر بالقاف. قال في المغرب: وأكثر استعماله في حمل البغل أو الحمار كالوسق في حمل البعير (قوله: أو نهر تجري فيه السفن) أي يمكن ذلك، ومثله يقال في قوله: تمر فيه عجلة ط. وأما البركة أو الحوض، فإن كان بحال لو وقعت النجاسة في جانب تنجس الجانب الآخر، لايمنع وإلا منع، كذا ذكره الصفار إسماعيل عن المحيط. وحاصله: أن الحوض الكبير المذكور في كتاب الطهارة يمنع أي ما لم تتصل الصفوف حوله كما يأتي (قوله: ولو (زورقًا) بتقديم الزاي: السفينة الصغيرة، كما في القاموس. وفي الملتقط: إذا كان كأضيق الطريق يمنع، وإن بحيث لايكون طريق مثله لايمنع سواء كان فيه ماء أو لا ...

(قوله: ولو في المسجد) صرّح به في الدرر والخانية وغيرهما (قوله: أو خلاء) بالمد: المكان الذي لا شيء به قاموس". (1/584، 585، باب الإمامة، کتاب الصلاة، ط: سعید)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق - (1 / 375):

"وينبغي للقوم إذا قاموا إلى الصلاة أن يتراصوا ويسدوا الخلل ويسووا بين مناكبهم في الصفوف ولا بأس أن يأمرهم الإمام بذلك وينبغي أن يكملوا ما يلي الإمام من الصفوف، ثم ما يلي ما يليه وهلمّ جرًّا، وإذا استوى جانبا الإمام فإنه يقوم الجائي عن يمينه وإن ترجح اليمين، فإنه يقوم عن يساره وإن وجد في الصف فرجه سدها وإلا فينتظر حتى يجيء آخر كما قدمناه، وفي فتح القدير، وروى أبو داود والإمام أحمد عن ابن عمر أنه قال: أقيموا الصفوف وحاذوا بين المناكب وسدوا الخلل ولينوا بأيديكم  (بأيدي) إخوانكم لاتذروا فرجات للشيطان من وصل صفًّا وصله الله ومن قطع صفًّا قطعه الله. وروى البزار بإسناد حسن عنه من سدّ فرجةً في الصف غفر له. وفي أبي داود عنه قال: خياركم ألينكم مناكب في الصلاة".

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"(منها) طريق عام يمر فيه العجلة والأوقار، هكذا في شرح الطحاوي. إذا كان بين الإمام وبين المقتدي طريق إن كان ضيقًا لايمر فيه العجلة والأوقار لايمنع وإن كان واسعًا يمر فيه العجلة والأوقار يمنع،كذا في فتاوى قاضي خان والخلاصة. هذا إذا لم تكن الصفوف متصلةً على الطريق، أما إذا اتصلت الصفوف لايمنع الاقتداء ... والمانع من الاقتداء في الفلوات قدر ما يسع فيه صفين وفي مصلى العيد الفاصل لايمنع الاقتداء وإن كان يسع فيه الصفين أو أكثر وفي المتخذ لصلاة الجنازة اختلاف المشايخ وفي النوازل جعله كالمسجد. كذا في الخلاصة.(ومنها نهر عظيم) لايمكن العبور عنه إلا بالعلاج كالقنطرة وغيرها، هكذا في شرح الطحاوي. فإن كان بينه وبين الإمام نهر كبير يجري فيه السفن والزوارق يمنع الاقتداء وإن كان صغيرا لاتجري فيه لايمنع الاقتداء هو المختار، هكذا في الخلاصة. وهو الصحيح. ... وإن كان على النهر جسر وعليه صفوف متصلة لايمنع صحة الاقتداء لمن كان خلف النهر وللثلاثة حكم الصف بالإجماع وليس للواحد حكم الصف بالإجماع، وفي المثنى اختلاف على ما مر في الطريق إن كان بينهما بركة أو حوض إن كان بحال لو وقعت النجاسة في جانب يتنجس الجانب الآخر لايمنع الاقتداء وإن كان لايتنجس يمنع الاقتداء، هكذا في المحيط". (1 / 87،  الباب الخامس فی بیان مقام الامام والماموم،ط: سعید)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع - (2 / 84):

"ولو كان بين الصفين حائط: إن كان طويلًا وعريضًا ليس فيه ثقب- يمنع الاقتداء ، وإن كان فيه ثقب لايمنع مشاهدة حال الإمام - لايمنع بالإجماع".

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع - (2 / 86):

"فأما إذا كان يصلي في الصحراء : فإن كانت الفرجة التي بين الإمام والقوم قدر الصفين فصاعدًا، لايجوز اقتداؤهم به؛ لأن ذلك بمنزلة الطريق العام أو النهر العظيم فيوجب اختلاف المكان، وذكر في الفتاوى أنه سئل أبو نصر عن إمام يصلي في فلاة من الأرض كم مقدار ما بينهما حتى يمنع صحة الاقتداء؟ قال: إذا كان مقدار ما لايمكن أن يصطف فيه جازت صلاتهم، فقيل له: لو صلى في مصلى العيد؟ قال: حكمه حكم المسجد".

الفتاوى الهندية - (3 / 156):

"والمانع من الاقتداء في الفلوات قدر ما يسع فيه صفين وفي مصلى العيد الفاصل لايمنع الاقتداء وإن كان يسع فيه الصفين أو أكثر".

الفتاوى الهندية - (3 / 160):

"إذا كان بينهما حائط لايصح الاقتداء إن كان كبيرًا يمنع المقتدي الوصول إلى الإمام لو قصد الوصول إليه اشتبه عليه حال الإمام أو لم يشتبه، كذا في الذخيرة. ويصح إن كان صغيرًا لايمنع أو كبيرًا وله ثقب لايمنع الوصول، وكذا إذا كان الثقب صغيرًا يمنع الوصول إليه، لكن لايشتبه عليه حال الإمام سماعًا أو رؤيةً هو الصحيح، وأما إذا كان الحائط صغيرًا يمنع، ولكن لايخفى حال الإمام، فمنهم من قال: يصح الاقتداء، وهو الصحيح، هكذا في المحيط". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144107200942

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں