بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر محرم عورت سے گفتگو اور اس کی تصاویر دیکھنا


سوال

اگر کوئی شادی شدہ آدمی کسی نامحرم عورت سے فون  پر بات کرے یا  اس کی نازیبا تصاویر دیکھے تو کیا وہ زنا کررہا ہے؟

جواب

مرد کے لیے نامحرم عورتوں سے بلاضرروت گفتگو، ہنسی مذاق اوربے تکلفی کرنا جائز نہیں، نیز یہ عمل سخت فتنہ کاموجب ہے۔

شرعی حکم یہ ہے کہ اگرکسی نامحرم سے بات چیت کی ضرورت پیش بھی آئے تونگاہ نیچی کرکے بات  چیت کی جائے،لہجے میں بھی شدت ہونی چاہیے۔

نیز شدیدضرورت کے بغیر جاندار کی تصویر کھینچنا یا کھنچوانا دونوں حرام اور ناجائز ہیں، مرد کے لیے کسی بھی عورت کی تصاویر دیکھنا ناجائز ہے، اور اجنبیہ عورت کی نازیبا تصاویر دیکھنا شدید کبیرہ گناہ اور فعل حرام ہے۔

لہذا یہ دونوں افعال اگرچہ زنانہیں، لیکن ایک تو ، زنا کے گناہ کبیرہ ہونے کی مانند یہ  دونوں فعل بھی گناہ کبیرہ ہیں ، اس لیے بعض روایات میں رسول اللہ ﷺنے بدنظری کو آنکھوں کا زناقراردیا ہے۔نیز یہ دونوں فعل زنا کی طرف لے جانے والے اور راغب کرنے والے ہیں، اس لیے زنا کی مانند ان دونوں سے بھی بچنا فرض اور لازم ہے۔

رياض الصالحين (2 / 228):
"باب تحريم النظر إِلَى المرأة الأجنبية والأمرد الحسن لغير حاجة شرعية:

قَالَ الله تَعَالَى: { قُلْ لِلمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أبْصَارِهِمْ } [ النور : 30 ] ، وقال تَعَالَى : { إنَّ السَّمْعَ وَالبَصَرَ والفُؤادَ كُلُّ أُولئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولاً } [ الإسراء : 36 ]، وقال تَعَالَى: { يَعْلَمُ خَائِنةَ الأَعْيُنِ وَمَا تُخْفِي الصُّدُورُ } [ غافر : 19 ] ، وقال تَعَالَى : { إنَّ رَبكَ لَبِالمِرْصَادِ } [ الفجر : 14 ].
(3) وعن أَبي هريرة - رضي الله عنه - : أنَّ النبيَّ صلى الله عليه وسلم، قَالَ : (( كُتِبَ عَلَى ابْن آدَمَ نَصِيبُهُ مِنَ الزِّنَا مُدْرِكُ ذَلِكَ لا مَحَالَةَ : العَيْنَانِ زِنَاهُمَا النَّظَرُ ، وَالأُذُنَانِ زِنَاهُمَا الاسْتِمَاعُ، وَاللِّسَانُ زِناهُ الكَلاَمُ، وَاليَدُ زِنَاهَا البَطْشُ، وَالرِّجْلُ زِنَاهَا الخُطَا، والقَلْبُ يَهْوَى وَيَتَمَنَّى، وَيُصَدِّقُ ذَلِكَ الفَرْجُ أَوْ يُكَذِّبُهُ )). متفق عَلَيْهِ. هَذَا لفظ مسلمٍ".

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة - (6 / 369):
"وفي الشرنبلالية معزيًا للجوهرة: ولايكلم الأجنبية إلا عجوزًا عطست أو سلمت فيشمتها لايردّ السلام عليها وإلا لا انتهى". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144110200922

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں