بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

والد کے گھر کو اجازت کے بغیر بیچنے کا حکم


سوال

میرے والد صاحب کا ایک پگڑی کا گھر تھا  جو کہ میرے نانا نے میرے والدصاحب کو آج سے تقریبا 40سال پہلے  6000 روپے میں بیچ دیا تھا ،یہ گھر تقریبا پچھلے سات سال سے بند تھا اور اب یہ گھر پندرہ لاکھ روپے میں بک گیا ہے۔میرے والدصاحب ذہنی مریض ہیں باتیں سمجھتے  ہیں، لیکن خود سے بولتے نہیں، گھر کی ساری ڈیلنگ میں  نے خود کری ،کیوںکہ میرا کوئی اور بھائی نہیں ہے ،میری صرف ایک شادی شدہ بہن ہے، والدہ بھی فوت ہوگئی ہیں۔میری بہن کی ایک اچھے گھرانے میں شادی ہوئی ہے،میری بہن پندرہ لاکھ میں سے کچھ لینا نہیں چاہتی ،والد صاحب کے ساتھ میں ہی رہتا ہوں ،میں شادی شدہ ہوں ،میری دوبیٹیاں ہیں  ،والد کا سارا خرچہ میں ہی اٹھاتا ہوں ،اب کیا یہ رقم والد صاحب کی اجازت سے میں لے سکتا ہوں۔؟

وضاحت:سائل نے گھر والد صاحب کی اجازت سے نہیں بیچا۔

جواب

 صورتِ مسئولہ میں سائل کا اپنے والد کے گھر(قاعدہ کے مطابق پگڑی کے گھر ) کو اس کی اجازت کے بغیر بیچنا درست نہیں،اگر  یہ بیچ دیا توسائل کے والد کی اجازت پر موقوف ہے،اگر سائل کا والد اجازت نہ دے تو یہ خرید وفروخت کا معاملہ ختم ہوجائے گا،اور  اگر انہوں نے اجازت دے دی ،تو یہ خریدوفروخت درست ہو جائے گی،اور پھر حاصل ہونے والی رقم سائل کے والد کی ملکیت ہوگی،وہ اس میں جیسے چاہے تصرف کرسکتا ہے ،اگر وہ یہ رقم اپنی خوشی سے اولاد میں تقسیم کرنا چاہتا ہے،تو اس کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اپنے لیے  جتنا چاہے رکھ لے،تاکہ بوقتِ ضرورت کسی کا محتاج نہ ہو، اس کے بعد  بقیہ رقم اپنی اولاد میں  برابری کے ساتھ تقسیم کر دے یعنی جتنا بیٹے کو دے اتنا ہی بیٹی کو بھی دے ،کسی کو بھی محروم نہ کرےاور بلا وجہ کمی بیشی نہ کرےورنہ گناہ گار ہوگا،اس صورت میں یہ تقسیم غیر شرعی کہلائے گی،البتہ کسی بیٹے یا  بیٹی کو  کسی معقول وجہ کی بنا پر  دوسروں کی بہ نسبت   کچھ زیادہ  دینا چاہے تو دےسکتا ہے،  یعنی کسی کی شرافت  ودین داری یا غریب ہونے کی بنا پر  یا زیادہ خدمت گزار ہونے کی بنا پر اس کو  دوسروں کی بہ نسبت کچھ زیادہ دے تو اس کی اجازت ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا بيع ما ليس مملوكا له وإن ملكه بعده إلا السلم، ...... وأما شرائط النفاذ فنوعان أحدهما الملك أو الولاية والثاني أن لا يكون في المبيع حق لغير البائع."

(کتاب البیوع، ج۳، ص۳، ط: دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية".

(کتاب الهبة، الباب السادس فی الھبة للصغیر، ص:392، ج:4، ط: دار الفکر)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144308100957

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں