بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر کی خریداری کے لیے جمع کردہ رقم کی صورت میں قربانی کا حکم


سوال

ہمارا ایک مشترکہ گھر ہے، لیکن میں اپنا ذاتی گھر خریدنا چاہتا ہوں ،اس کے  لیے میں نے کچھ رقم جمع کی ہے  تو  کیا اس رقم کی وجہ سے مجھ پر قربانی فرض  ہے ؟جب کہ میری بیوی کے پاس جو سونا ہے تو اس کے لیے میں اپنے پیسوں سے قربانی کرتا ہوں ۔

جواب

اگر آپ کے پاس عید الاضحٰی کے ایام میں  جمع کردہ رقم ساڑھے باون تولہ چاندی کی موجودہ قیمت کے برابر یا اس سے زائد  ہو  تو اس صورت میں آپ   پر  قربانی واجب ہے، اگرچہ وہ رقم آپ نے مکان خریدنے کی نیت سے جمع کی ہو،نیز  اس رقم پر سال گزرناشرط نہیں ہے۔اسی طرح اگر مذکورہ رقم تو نصاب تک نہ پہنچی ہو لیکن ضرورت و استعمال سے زائد   سامان، گاڑی یامکان وغیرہ موجود ہو  جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہوتب بھی قربانی واجب ہے۔ (فتاویٰ بینات4/566،ط:مکتبہ بینات)

اگر آپ کی اہلیہ قربانی کے لحاظ سے صاحبِ  نصاب ہیں جیساکہ آپ نے ذکر کیا ہے ، تو ان پر اپنی جانب سے قربانی کرنا واجب ہوگا، تاہم اگر آپ ان کی جانب سے قربانی میں حصہ ڈالتے ہیں تو یہ جائز ہے ، لیکن بیوی کی جانب سے قربانی کرنے سے آپ کی اپنی واجب قربانی ادا نہ ہوگی ۔نیز اگر آپ اپنی جانب سے واجب قربانی کریں اور اہلیہ کی جانب سے قربانی میں حصہ نہ ڈالنا چاہیں تو ان کی جانب سے آپ پر قربانی کرنا واجب نہیں، اس صورت میں  ان پر اپنے مال سے قربانی  کرنا واجب ہوگا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے: (5 / 302):

"ولو ضحى ببدنة عن نفسه وعرسه وأولاده ليس هذا في ظاهر الرواية، وقال الحسن بن زياد في كتاب الأضحية: إن كان أولاده صغاراً جاز عنه وعنهم جميعاً في قول أبي حنيفة وأبي يوسف - رحمهما الله تعالى -، وإن كانوا كباراً إن فعل بأمرهم جاز عن الكل في قول أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما الله تعالى".  

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111201538

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں