بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر خریدنے کے لیے رکھے گئے رقم پر زکوۃ کا حکم


سوال

ہم 2بھائیوں نے ایک عدد بی سی ڈالی تھی جو کہ2سال پہلے کھل چکی ہے جس کی مالیت 500000/-(پانچ لاکھ)ہے، بی سی میں آدھی رقم میری اور آدھی رقم میرے بھائی کی ہے،وہ بی سی ہم نے اپنا نیا گھر لینے  کے لیے ڈالی تھی،  مگر ہم نیا گھر ابھی لے نہیں پا ئے ہیں، وہ رقم ابھی صرف رکھی ہوئی ہے اور کسی استعمال میں نہیں آرہی۔ مجھے پوچھنا یہ تھا کہ اِس بی سی کی رقم پر ہمیں زکوٰۃ ادا کرنی ہوگی،اگر ادا کرنی ہوگی تو دونو ں بھائی برابر زکوٰۃ ادا کریں گے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر سائل اور اس کے بھائی کی مذکورہ بی سی پر قمری مہینوں کے اعتبار سےسال گزر چکا ہے ،یا مذکورہ مال کے مالک بننے سے پہلے ہی دونوں صاحبِ نصاب تھے تو ہر ایک بھائی پر قرض وغیرہ کو منہا کرکے باقی  ماندہ کل رقم پر ہر سال ڈھائی فیصد زکوٰۃ واجب ہے۔نیز ملحوظ رہے کہ بی سی کی رقم   ملنے کے بعد  سال پورا  ہونے پر زکوٰۃ کا  حساب  لگاتے وقت بی سی کی بقایا رقم جتنی جمع کرانی ہے اتنی رقم زکوٰۃ میں قرض ہونے کی وجہ سے منہا کی جائے گی۔ 

ترمذی وابوداؤد شریف کی روایت میں ہے :

"عن علي رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: « قد عفوت عن الخيل والرقيق فهاتوا صدقة الرقة من كل أربعين درهماً درهم، وليس فى تسعين ومائة شىء فإذا بلغت مائتين ففيها خمسة دراهم".

(سنن الترمذی،باب زکاۃ الذھب والفضة،ج: 3، ص: 16، ط: بیروت-سنن أبی داؤد، باب فی زکوۃ السائمة، ج: 2، ص: 11)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"تجب في كل مائتي درهم خمسة دراهم، وفي كل عشرين مثقال ذهب نصف مثقال."

(كتاب الزكاة ، الباب الثالث في زكاة الذهب والفضة ولعروض ، الفصل الأول في زكاة الذهب والفضة ج: 1 ص: 178 ط: دار الفکر)

وفیہ  ایضا :

"وتضم قيمة العروض إلى الثمنين والذهب إلى الفضة قيمة كذا في الكنز...لكن يجب أن يكون التقويم بما هو ‌أنفع ‌للفقراء قدرا ورواجا."

(كتاب الزكاة ، الباب  الثالث في زكاة الذهب والفضة ولعروض ، الفصل الأول في زكاة الذهب والفضة ج: 1 ص: 179 ط: دارالفکر)

  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506102780

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں