بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

’’ میر پاکستان، میرا گھر ‘‘ کے تحت قرض لینا / اسلامی بینک سے قرض لینا


سوال

وزیر اعظم ” میر پاکستان، میرا گھر “  اسکیم کےتحت  گھر دے رہے ہیں، یقینی طور پر قرض ہے ،تو کہیں نہ کہیں سود بھی ہوگا ،تو کیا کسی اسلامی بینک جیسے میزان بینک  سے  شریعت  کے مطابق قرض  لیا جاسکتا ہے، میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہے کہ کسی رشتے دار سے قرض لے سکوں؟

جواب

 حکومت  کی طرف سے  بعنوان "وزیرِ اعظم قرضہ سکیم"  کے تحت ملنے والی رقم بطورِ قرضہ دینے کے بعد واپسی پر اضافی رقم دینی پڑتی ہے  جو کہ سود ہے؛ لہذا مذکورہ  سکیم کے تحت ملنے والا قرضہ لینا شرعاً جائز  نہیں ہے۔

نیز مروجہ غیر سودی بینکوں (مثلاً میزان بینک وغیرہ )سے  بھی مذکورہ اسکیم کے تحت قرضہ لینا بھی جائز نہیں ہے، میزان بینک کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق میزان بینک  "میرا پاکستان میرا گھر " نامی اسکیم میں شرکتِ متناقصہ (diminishing musharka) کے ذریعہ فائنینسنگ کرتا ہے، لیکن اس معاملے میں بہت  سے شرعی اصولوں کی خلاف ورزی لازم آتی ہے، مثلاً ایک ہی معاملے میں  كئي عقود  (بیع، شرکت اور اجارہ)  کو جمع کرنا اور عملاً ایک عقد کو دوسرے عقد کے لیے شرط قرار دینا وغیرہ؛ لہذا اس سکیم کے تحت گھر لینا جائز نہیں ہے۔ 

اگر قرض لینا ہی ہو تو بینک کے علاوہ کسی اور  سے غیر سودی قرضہ حاصل کر لیں۔ اور جب تک غیر سودی قرض نہ ملے، متبادل حلال ذریعہ پر اکتفا کیجیے، دعاؤں کے اہتمام کے ساتھ  استغفار   اور "اَللّٰهُمَّ اكْفِنِيْ بِحَلَالِكَ عَنْ حَرَامِكَ وَأَغْنِنَا بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ"کی کثرت رکھیں، سورۃ الشوریٰ (۲۵ واں پارہ) کے دُوسرے رُکوع کی آخری آیت: {اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبَادِهِ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ وَهُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ} اَسی مرتبہ فجر کے بعد پڑھا کریں۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر جامعہ کا فتویٰ ملاحظہ فرمائیں:

’’میرا پاکستان میرا گھر‘‘ اسکیم کے تحت گھر خریدنے کے لیے قرضہ لینے کا حکم

قرآنِ کریم میں ہے:

﴿ يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ  وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِه وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ أَمْوَالِكُمْ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ وَإِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَة إِلٰى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْر لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ [البقرة : ۲۷۸ إلى ۲۸٠ ]

ترجمہ:” اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایاہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگرتم نہ کرو گے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے۔ اور اگر تم توبہ کرلوگے تو تم کو تمہارے اصل اموال مل جائیں گے، نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے اور نہ تم پر ظلم کرنے پائے گا، اور اگر تنگ دست ہو تو مہلت دینے کا حکم ہے آسودگی تک، اور یہ کہ معاف ہی کردو  زیادہ بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم کو خبر ہو۔“

حدیث شریف میں ہے:

"عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُمَيْرٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْكَسْبِ أَطْيَبُ؟ قَالَ: " عَمَلُ الرَّجُلِ بِيَدِهِ، وَكُلُّ بَيْعٍ مَبْرُورٍ."

(شعب الإيمان (2/ 434)

ترجمہ:”آپ ﷺ سے پوچھا گیا  کہ:  سب سے پاکیزہ کمائی کو ن سی ہے؟ تو آپ ﷺنے فرمایا کہ  آدمی کا  خود  اپنے ہاتھ سے محنت کرنا اور ہر جائز اور مقبول بیع۔

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201943

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں