بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گھوڑے کی حلت اور قربانی


سوال

 کیا گھوڑا حلال ہے۔اگر حلال ہے تو کیا قربانی کر سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ اگرچہ فی نفسہ گھوڑا حلال جانور ہے، لیکن چونکہ گھوڑا جہاد کے اہم ذرائع میں سے ایک ہے، اگر اس کو بھی عام حلال جانوروں کی طرح ذبح کیا جائے گا، تو اس کے نتیجے میں جہاد کے آلات میں کمی واقع ہو جائے گی، چنانچہ فقہاء کرام نے اس خطرے کے پیش نظر گھوڑے کو ذبح کرنا مکروہ قرار دیا ہے۔

فتاوى هنديہ میں ہے:

" يكره لحم الخيل في قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى، خلافاً لصاحبيه، واختلف المشايخ في تفسير الكراهة، والصحيح أنه أراد بها التحريم، ولبنه كلحمه، كذا في فتاوى قاضي خان. وقال الشيخ الإمام السرخسي: ما قاله أبو حنيفة رحمه الله تعالى أحوط، وما قالا أوسع، كذا في السراجية".

( الفتایٰ الهندية، كتاب الذبائح،الباب الثالث في المتفرقات،290/5، رشيدية)

بدائع الصنائع میں ہے :

"وأما لحم الخيل فقد قال أبو حنيفة رضي الله عنه: يكره، وقال أبو يوسف ومحمد رحمهما الله: لا يكره، وبه أخذ الشافعي رحمه الله".

(بدائع الصنائع، كتاب الذبائح والصيود، المأكول وغير المأكول من الحيوانات، 38/5،دارالكتب العلمية)

نیز یہ واضح رہے کہ  قربانی کے جانور شرعی طور پر متعین ہیں، جن میں   اونٹ ،گائے، دنبہ ، بھیڑ ، بکرا،مینڈھا (مذکر ومؤنث ) شامل ہیں،بھینس  گائے  کی ہی ایک قسم ہے،  ان کے علاوہ کسی جانورکی قربانی درست نہیں۔ لہذا گھوڑے  کی  قربانی  جائز نہیں ہے،نبی کریم ﷺ سے   قولاً یا فعلاً گھوڑے کی قربانی کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(أما جنسه): فهو أن يكون من الأجناس الثلاثة: الغنم أو الإبل أو البقر، ويدخل في كل جنس نوعه، والذكر والأنثى منه والخصي والفحل لانطلاق اسم الجنس على ذلك، والمعز نوع من الغنم والجاموس نوع من البقر، ولا يجوز في الأضاحي شيء من الوحشي، فإن كان متولدا من الوحشي والإنسي فالعبرة للأم، فإن كانت أهلية تجوز وإلا فلا، حتى لو كانت البقرة وحشية والثور أهليا لم تجز."

(الفتاویٰ الهندية،کتاب الاضحیہ، الباب الخامس في بيان محل إقامة الواجب، 297/5، رشیدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100451

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں