بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھوڑے کا گوشت حلال ہونے کے باوجود کھانا مکروہ ہونے کی وجہ


سوال

میں نے تو پڑھا تھا  کہ گھوڑے کا گوشت کھانا جائز ہے، آپ نے حرام کیوں فرمایا ہے؟

جواب

گھوڑا فی نفسہ حلال ہے، لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک گھوڑے کے آلۂ   جہاد  ہونے کی وجہ سے  گھوڑے کا گوشت کھانا مکروہِ تحریمی  ہے،  اور فقہ حنفی میں اسی قول پر فتوی ہے، آج کے دور میں بھی جنگ کے دوران اور سرحدات کی حفاظت کے لیے دشوار گزار راستوں سے ہوتے ہوئے مختلف اہم پوسٹوں تک پہنچنے میں گھوڑوں کا استعمال کیا جاتا ہے، اسی وجہ سے ہر ملک کی قومی پریڈ میں فوج/ پولیس کے گھڑ سوار دستے بھی پیش ہوتے ہیں، اور حدیثِ پاک میں ہے کہ گھوڑوں کی پیشانی میں قیامت تک کے لیے خیر لکھ دی گئی ہے، اس لیے یہ اشکال بھی لازم نہیں آتا کہ گھوڑے اب آلہ جہاد نہیں رہے؛ لہذا گھوڑے کے گوشت کا حکم موجودہ زمانے میں بھی یہی ہے کہ گھوڑے کا گوشت حلال ہونے کے باوجود کھانا مکروہِ تحریمی ہے۔

الفتاوى الهندية (5/ 290):

" يكره لحم الخيل في قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى، خلافاً لصاحبيه، واختلف المشايخ في تفسير الكراهة، والصحيح أنه أراد بها التحريم، ولبنه كلحمه، كذا في فتاوى قاضي خان. وقال الشيخ الإمام السرخسي: ما قاله أبو حنيفة رحمه الله تعالى أحوط، وما قالا أوسع، كذا في السراجية".

بدائع الصنائع (5/ 38):

"وأما لحم الخيل فقد قال أبو حنيفة رضي الله عنه: يكره، وقال أبو يوسف ومحمد رحمهما الله: لايكره، وبه أخذ الشافعي رحمه الله".

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144206201476

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں