بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھوڑا اٰلہ جہاد کے قابل نہ رہے تو کیا حکم ہے؟


سوال

کیا اس گھوڑے کو ذبح کرکے کھانا جائز ہے جس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہو یا مرہا ہو، کیوں کہ اب یہ اٰلہ جہاد نہیں رہا، بلکہ وہ خود مرنے کوہے۔

جواب

گھوڑا فی نفسہ حلال ہے، لیکن امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک گھوڑے کاگوشت  آلہ جہاد ہونے کی وجہ سے  مکروہِ تحریمی  ہے، اور فقہ حنفی میں اسی قول پر فتوی ہے، آج کے دور میں بھی جنگ کے دوران اور سرحدات کی حفاظت کے لیے دشوار گزار راستوں سے ہوتے ہوئے مختلف اہم پوسٹ تک پہنچنے میں گھوڑوں کا استعمال کیا جاتا ہے، اسی وجہ سے ہر ملک کی قومی پریڈ میں فوج/ پولیس کے گھڑ سوار دستے بھی پیش ہوتے ہیں، اور حدیثِ پاک میں ہے کہ گھوڑوں کی پیشانی میں قیامت تک کے لیے خیر لکھ دی گئی ہے۔لہذا اگرگھوڑاکسی وجہ سےاٰلہ جہادکے قابل نہ رہےتب بھی اسےذبح کرکے کھانامکروہ تحریمی  ہوگا۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

" يكره لحم الخيل في قول أبي حنيفة رحمه الله تعالى، خلافاً لصاحبيه، واختلف المشايخ في تفسير الكراهة، والصحيح أنه أراد بها التحريم، ولبنه كلحمه، كذا في فتاوى قاضي خان. وقال الشيخ الإمام السرخسي: ما قاله أبو حنيفة رحمه الله تعالى أحوط، وما قالا أوسع، كذا في السراجية".

(الفتاوى الهندية ، کتاب الذبائح ، الباب الثالث فی المتفرقات5/ 290ط: رشیدیۃ)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(‌وأما) ‌لحم ‌الخيل فقد قال أبو حنيفة رضي الله عنه يكره وقال أبو يوسف ومحمد رحمهما الله لا يكره، وبه أخذ الشافعي رحمه الله".

(الفتاوى الهندية ، کتاب الذبائح ، المأكول وغير المأكول من الحيوانات5/ 38ط: رشیدیۃ)

احسن الفتاوی میں ہے:

"سوال : کھوڑاحرام ہے یاحلال ؟ بعض مکروہ قراردیتےہیں ، مکروہ ہونے کی صورت میں مکروہ تحریمی ہے یامکروہ تنزیہی ؟ 

الجواب باسم ملہم الصواب: گھوڑا مفتی بہ قول پر مکروہ تحریمی ہے ۔"

( احسن الفتاوی ، کتاب الصید والذبائح ، 7/ 403 ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406100789

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں