بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مسلم سے کالا دھاگہ دم کرواکر گلے میں ڈالنا


سوال

کسی غیر مسلم سے کالا دھاگہ دم کرواکے گلے میں ڈالنا کیسا ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ کفریہ کلمات پر مشتمل تعویذ وغیرہ گلے میں لٹکانا، یاکسی ایسے شخص  کے پاس دم کے لیے جاناجو کفریہ کلمات سے دم کرتاہو، شرعاً جائز نہیں ،اور  غیر مسلم   کے بارے میں غالب گمان یہی ہے کہ وہ کفریہ کلمات پر مشتمل الفاظ سے دم کرتاہوگا؛ اس لیے کسی غیر مسلم سے کسی قسم کادھاگا  وغیرہ دم کروانا اور دم کیاہوادھاگا  گلے میں لٹکاناجائز نہیں ۔

ملاعلی قاری  رحمہ اللہ نے مرقاۃ المفاتیح میں لکھاہے:

"عن زينب امرأة عبد الله بن مسعود - رضي الله عنه - «أن عبد الله رأى في عنقي خيطا، فقال: ما هذا؟ فقلت: خيط رقي لي فيه قالت: فأخذه فقطعه، ثم قال: أنتم آل عبد الله لأغنياء عن الشرك، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إن الرقى والتمائم والتولة شرك " فقلت: لم تقول هكذا؟ لقد كانت عيني تقذف، وكنت أختلف إلى فلان اليهودي، فإذا رقاها سكنت، فقال عبد الله: إنما ذلك عمل الشيطان، كان ينخسها بيده، فإذا رقي كف عنها، إنما كان يكفيك أن تقولي كما كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول: " اذهب البأس، رب الناس واشف أنت الشافي، لا شفاء إلا شفاؤك، شفاء لا يغادر سقما» ". رواه أبو داود. . . قال الطيبي: وفيه رد لاعتقادها أن رقية اليهودي شافية وإرشاد إلى أن الشفاء الذي لا يغادر سقما هو شفاء الله تعالى، وأن شفاء اليهودي ليس فيه إلا تسكين ما، يعني بمعاونة فعل الشيطان كما تقدم والله أعلم."

(كتاب الطب والرقي، 2879/7، ط:دار الفكر)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اہلیہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے میرے گلے میں ایک دھاگا دیکھا تو پوچھا: یہ کیا ہے؟ میں نے کہا: یہ دھاگا ہے جس میں میرے لیے دم کیا گیا ہے، کہتی ہیں: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے وہ دھاگا لیا اور اسے کاٹ دیا، پھر فرمایا: اے عبداللہ (ابن مسعود) کے گھر والو ! تم لوگ شرک سے مستغنی ہو، میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: بے شک یہ (ناجائز) دم، منتر اور تعویذ گنڈے شرک ہیں، میں نے کہا: آپ یہ کیسے کہتے ہیں، جب کہ میری آنکھ (قبل از اسلام) دکھتی تھی تو میں فلاں یہودی کے پاس دم کے لیے جاتی تھی، جب وہ دم کرتا تھا تو آنکھ ٹھیک ہوجاتی تھی! اس پر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ شیطان کا کام تھا، وہ تمہاری آنکھ میں انگلی سے چوکا لگاتا تھا، اور جب اس میں منتر پڑھا جاتا تو شیطان رک جاتا تھا، تمہارے لیے یہ دعا کافی ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے: 

 ’’أَذْهِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ، وَ اشْفِ أَنْتَ الشَّافِيْ، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاءُكَ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَماً‘‘.

ترجمہ: تکلیف دو کردیجیے اے لوگوں کے رب! اور شفا بخش دیجیے آپ ہی شفا دینے والے ہیں، آپ کی دی ہوئی شفا کے علاوہ کوئی شفا نہیں، ایسی شفا دے دیجیے جو کسی بیماری کو نہ چھوڑے۔

(مشکاۃ بحوالہ سنن ابی داؤد)

فتح الباری میں ہے:

"أجمع ‌العلماء ‌على ‌جواز الرقى عند اجتماع ثلاثة شروط أن يكون بكلام الله تعالى أو بأسمائه وصفاته وباللسان العربي أو بما يعرف معناه من غيره وأن يعتقد أن الرقية لا تؤثر بذاتها بل بذات الله تعالى."

(كتاب الطب، ١٩٥/١٠، ط:دار المعرفة)

تبیین الحقائق میں ہے:

"ولا بأس بالرقى؛ لأنه - عليه الصلاة والسلام - كان يفعل ذلك، وما جاء فيه من النهي عنه - عليه الصلاة والسلام - محمول على رقى الجاهلية إذ كانوا يرقون بكلمات كفر ألا ترى إلى ما يروى عن «عروة بن مالك أنه قال كنا في الجاهلية نرقي فقلنا يا رسول الله كيف ترى في ذلك فقال اعرضوا على رقاكم ‌لا ‌بأس ‌بالرقى ما لم يكن فيه شرك» رواه مسلم، وأبو داود."

(كتاب الكراهية، فصل في البيع، ٣٣/٦، ط:المطبعة الكبرى الأميرية)

الموسوعۃ المفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"اختلف الفقهاء في جواز رقية ‌الكافر للمسلم فذهب الحنفية والإمام الشافعي، وهو رواية عن مالك إلى: جواز رقية اليهودي والنصراني للمسلم إذا ‌رقى بكتاب الله وبذكر الله. لما روي في موطأ مالك: أن أبا بكر رضي الله عنه دخل على عائشة رضي الله تعالى عنها وهي تشتكي، ويهودية ترقيها، فقال أبو بكر: ارقيها بكتاب الله.  قال الباجي: يحتمل - والله أعلم - أن يريد بقوله " بكتاب الله " أي " بذكر الله عز وجل " أو رقية موافقة لما في كتاب الله، ويعلم صحة ذلك بأن تظهر رقيتها، فإن كانت موافقة لكتاب الله أمر بها."

(حرف التاء، ٣٤/١٣، ط:دارالسلاسل)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144504101437

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں