بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غیرمستعمل موقوفہ قبرستان کو شادی ہال کےلیے کرایہ پر دینے کا حکم


سوال

موقوفہ قبرستان کی جو کہ ابھی غیرمستعمل  ہے جس پر سے قدیم قبور کے اثرات زائل ہیں،  10, 12 سال گزر چکے ہے اس جگہ کو قبرستان کمیٹی سے اسلامک اسکول کا پلے گراؤنڈ اور شادی ہال بنانے کے لے اجرت پر لینا کیسا ہے۔ برائے مہربانی مع تفصیل مع دلائل (جائز و ناجائز) جواب  عنایت فرمائیں ۔

جواب

واضح رہے کہ وقف جب درست اور صحیح ہوجائے  تو موقوفہ چیز قیامت تک کے لیے  واقف کی ملکیت سے  نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہوجاتی ہے، اس کے بعد اس کی خرید وفروخت کرنا، ہبہ کرنا، کسی کو مالک بنانا  اور اس کو وراثت میں تقسیم کرنا جائز نہیں ہوتا، اور جو جگہ واقف نے جس مقصد کے لئے وقف کی ہو اسے اسی مقصد میں استعمال کرنا شرعاً لازم اور واجب ہے، لہذا صورتِ مسئولہ میں جب مذکورہ زمین قبرستان کے لئے باقاعدہ وقف کردی گئی تھی تواب  قبرستان کے  لیے وقف شدہ زمین کو گراؤنڈ یا شادی ہال کے لیے کرایہ پر دینا جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"شرط الواقف ‌كنص ‌الشارع فيجب اتباعه كما صرح به في شرح المجمع للمصنف۔"

(کتاب الوقف، ج:4، ص: 495، ط:سعید)

وفیه ايضاً:

"وشرط الإسعاف أن يكون المستبدل قاضي الجنة المفسر بذي العلم والعمل لئلا يحصل التطرق إلى إبطال أوقاف المسلمين كما هو الغالب في زماننا اهـ ويجب أن يزاد آخر في زماننا: وهو أن يستبدل بعقار لا بدراهم ودنانير فإنا قد شاهدنا النظار يأكلونها، وقل أن يشتري بها بدلا ولم نر أحدا من القضاة فتش على ذلك مع كثرة الاستبدال في زماننا. اهـ."

(کتاب الوقف، مطلب في استبدال الوقف وشروطه، ج:4، ص: 386، ط:سعید)

وفيه ايضاً:

"قال العلامة البيري بعد نقله أقول: وفي فتح القدير والحاصل: أن الاستبدال إما عن شرط الاستبدال أولا عن شرطه، فإن كان لخروج الوقف عن انتفاع الموقوف عليهم، فينبغي أن لا يختلف فيه وإن كان لا لذلك بل اتفق أنه أمكن أن يؤخذ بثمنه ما هو خير منه مع كونه منتفعا به، فينبغي أن لا يجوز لأن ‌الواجب ‌إبقاء ‌الوقف على ما كان عليه دون زيادة ولأنه لا موجب لتجويزه؛ لأن الموجب في الأول الشرط وفي الثاني الضرورة ولا ضرورة في هذا إذ لا تجب الزيادة بل نبقيه كما كان. اهـ.

أقول: ما قاله هذا المحقق هو الحق الصواب اهـ كلام البيري وهذا ما حرره العلامة القنالي۔"

(کتاب الوقف، مطلب في استبدال الوقف وشروطه، ج:4، ص: 388، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا ‌يجوز ‌تغيير ‌الوقف عن هيئته فلا يجعل الدار بستانا ولا الخان حماما ولا الرباط دكانا۔"

(كتاب الوقف، الباب الرابع عشر في المتفرقات،  ج:2، ص: 490، ط:رشيدية)

وفيه ايضاً:

"سئل القاضي الإمام شمس الأئمة محمود الأوزجندي عن مسجد لم يبق له قوم وخرب ما حوله واستغنى الناس عنه هل يجوز جعله مقبرة؟ قال: لا. وسئل هو أيضا ‌عن ‌المقبرة ‌في ‌القرى إذا اندرست ولم يبق فيها أثر الموتى لا العظم

ولا غيره هل يجوز زرعها واستغلالها؟ قال: لا، ولها حكم المقبرة، كذا في المحيط فلو كان فيها حشيش يحش ويرسل إلى الدواب ولا ترسل الدواب فيها، كذا في البحر الرائق۔"

(كتاب الوقف، الباب الثاني عشر في الرباطات والمقابر والخانات والحياض، ج:2، س: 470، ط:رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100865

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں