بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مملوکہ غیر آباد زمین حکومت جس کو دے گی وہ اسی کی ملکیت ہوگی


سوال

مسئلہ یہ ہے کہ  ہمارے ہاں پشین  میں ایک  غیر آبادزمین  کے ایک حصہ پر ترین قوم کا دعوی تھا کہ یہ زمین ہماری ہے ،  پھر حکومت نے  وہ زمین افغان مہاجرین کو نوے  سال کے لیے  دے دی تھی، جس میں افغان مہاجرین آباد رهے،  لیکن اب اکثر وہاں سے جا چکے ہیں،  ہم جب پشین آئے تو ہم نے ترین قوم کے  ایک فرد سے  وہ زمین خریدی   جس نے حکومت سے کاغذات بنوائے ہوئے تھے ،سرکاری کاغذات میں وہ زمین اسی بندے کے نام ہے ،   البتہ اس نے کاغذات بعد میں بنوائے ،  جبکہ حکومت وہ زمین افغان مہاجرین کو دے چکی تھی،  لیکن ہمیں معلوم نہیں تھا کہ یہ افغان مہاجرین کو دی گئی ہے۔

ہم نے جب اس سے  یہ زمین    خریدی تھی  تو  اس وقت اس  سے کاغذات بھی  لئے  تھے ، لیکن اب ترین قوم اسی زمین پر  یہ دعوی کر رہی ہے کہ اگر حکومت یہ زمین  افغان مہاجرین کو دے تو ان کی ہوگی ، ورنہ ہماری ہوگی ،  جب ہم  ان سے کہتے ہیں کہ  ہم نے آپ کے قوم کے فرد سے یہ زمین  خریدی تھی ، اور  سرکاری طور پر یہ زمین اسی  کے نام ہے  تو وہ کہتے ہیں کہ اس نے تمہیں جعلی کاغذات دیے تھے۔

اب دریافت یہ کرنا ہے کہ:

1۔یہ زمین کس کی ملکیت ہوگی ؟

2۔اسی زمین کے متصل  ایک دوسری بنجر  زمین  ہے جو سرکاری کاغذات میں کسی کے نام پر نہیں ہے،  لیکن اس پر بھی ترین قوم  ملکیت کا دعوی کر رہی ہے ،  تو یہ متصل زمین کس کی ملکیت ہوگی؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں اگر  سائل کا بیان حقیقت پر مبنی ہے کہ مذکورہ زمین بنجر تھی ،  کسی کی ملکیت نہیں تھی اور نہ ہی کسی نے   آباد  کی ، پھر  حکومت نے مذکورہ زمین افغان مہاجرین کو  نوے سال تک کے لیے  رہنے کے لیے دی ، لیکن جب افغانستان کے حالات درست ہوئے تو مہاجرین واپس لو ٹ گیے ،پھر اس بندے نے خود حکومت سے خود  اپنے نام کروائی یا حکومت نے اس  کے نام کردی تھی(جس سے سائل نے خریدی ہے) تو اس سے  وہ زمین اس کی ملکیت ہو گئی تھی   ، پھر اس کے لیے   مذکورہ زمین کو فروخت کرنا درست تھا ،اب  جب سائل نے اس سے  وہ زمین خریدلی  ہے تو  وہ زمین   سائل کی ملکیت میں داخل   ہو گئی ہے ؛ لہذا  اب ترین قوم کے مذکورہ  دعوے کا کوئی اعتبار نہیں ہے، جبکہ وہ زمین بنجر تھی،  ترین قوم کی ملکیت نہیں تھی اور نہ ہی ترین قوم نے اس کو آباد کیا تھا۔

2۔باقی مذکورہ زمین سے متصل  جو بنجر زمین ہے اور اس پر ترین قوم ملکیت کا دعوی کررہی ہےتو ایسی صورت میں ان پر شرعی شہادت سے اپنی ملکیت کو ثابت کرنا لازم ہے، اگر وہ شرعی شہادت سے اپنی ملکیت ثابت کردیتے ہیں تو یہ زمین ان کی ہوگی اور اگر وہ  شرعی شہادت سے اپنی ملکیت ثابت نہیں کر سکے تو ایسی صورت میں    حکومت وہ زمین  جس شخص کے حوالے  کرےگی یا جو شخص اس کو حکومت کی اجازت سے آباد کرے گا، وہ اسی کی ہو گی ۔ 

صحيح البخاری  میں ہے :

"عن أسماء بنت أبي بكر رضي الله عنهما، قالت: «كنت أنقل النوى من أرض الزبير التي أقطعه رسول الله صلى الله عليه وسلم على رأسي، وهي مني على ثلثي فرسخ» وقال أبو ضمرة، عن هشام، عن أبيه: أن النبي صلى الله عليه وسلم أقطع الزبير أرضا من أموال بني النضير۔"

(باب ما كان النبي صلى الله عليه وسلم يعطي المؤلفة قلوبهم وغيرهم من الخمس ونحوه : 4 / 92 ، ط : السلطانیۃ بالمطبعة الكبرى الأميرية، ببولاق مصر)

فتح القدير للكمال ابن الهمام  میں ہے :

"قال (الموات ما لا ينتفع به من الأراضي لانقطاع الماء عنه أو لغلبة الماء عليه أو ما أشبه ذلك مما يمنع الزراعة) سمي بذلك لبطلان الانتفاع به. قال (فما كان منها عاديا لا مالك له أو كان مملوكا في الإسلام لا يعرف له مالك بعينه وهو بعيد من القرية بحيث إذا وقف إنسان من أقصى العامر فصاح لا يسمع الصوت فيه فهو موات).........

(ثم من أحياه بإذن الإمام ملكه، وإن أحياه بغير إذنه لم يملكه عند أبي حنيفة - رحمه الله -، وقالا: يملكه) لقوله - عليه الصلاة والسلام - «من أحيا أرضا ميتة فهي له» ولأنه مال مباح سبقت يده إليه فيملكه كما في الحطب والصيد. ولأبي حنيفة - رحمه الله - قوله - عليه الصلاة والسلام - «ليس للمرء إلا ما طابت نفس إمامه به» وما روياه يحتمل أنه إذن لقوم لا نصب لشرع، ولأنه مغنوم لوصوله إلى يد المسلمين بإيجاف الخيل والركاب فليس لأحد أن يختص به بدون إذن الإمام كما في سائرالغنائم۔"

(کتاب احیاء الموات : 10 / 69 ، ط : شركة مكتبة ومطبعة مصفى البابي الحلبي وأولاده بمصر)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100759

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں