بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مدخول بہا کو تین طلاق الگ الگ دینے اور کلما کی قسم کھانے کا حکم


سوال

ایک شخص کا ایک جگہ نکاح ہوا، رخصتی نہیں ہوئی تھی، کہ آٹھ ماہ بعد اس نےالگ الگ الفاظ سے تین طلاقیں دے دیں، الفاظ یہ تھے کہ: "میں اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں،طلاق دیتا ہوں" پھر گھر والوں کے زور پر دوبارہ اسی جگہ پر نکاح کرنے پر مجبور کیاگیا، تو اس نے تنگ آکر کلما کی قسم کھالی اور اس کے الفاظ یہ تھے کہ: "میں کلما کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ میں یہاں نکاح نہیں کرتا" 

اب دریافت یہ کرنا ہے کہ اگر یہی شخص دوبارہ اسی جگہ نکاح کرنا چاہے تو شرعاً نکاح ہوسکتاہے یا نہیں، اگر ہو سکتا ہے تو اس کا کیاطریقہ کا رہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  جب مذکورہ شخص نےرخصتی سے قبل اپنی بیوی کو طلاق دیتے ہوئےپہلی دفعہ  یہ کہا کہ: " میں اپنی بیوی کو طلاق دیتا ہوں" تو اس سےمذکورہ لڑکی پرایک طلاق بائن واقع ہوگئی تھی ، نکاح ختم ہوگیا تھا،عورت مزید طلاق کا محل نہیں رہی تھی ، لہٰذا بعد والی دو طلاقوں سے مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی، اب اگر دونوں ساتھ رہنے پر رضامند ہیں اور دوبارہ نکاح کرنا چاہتے ہیں، تو دو گواہوں کی موجودگی  میں نئے مہر کےساتھ نکاح ہوسکتاہے، تجدیدِ نکاح کی صورت میں مذکورہ شخص کوآئندہ کے لیے صرف دو طلاقوں کا اختیار حاصل ہوگا۔

واضح رہے کہ لوگوں میں جو کلما کی قسم مشہور ہے جس سے لوگ یہ سمجھتے ہیں  کہ اس طرح قسم کھانے والا  جب نکاح کرے گا تو اس کی بیوی پر طلاق واقع ہو جائے گی، یہ اس وقت ہوتا ہے کہ جب قسم کھانے والا اس طرح قسم کھائے کہ: " میں جب جب نکاح کروں  تو میری بیوی پر طلاق"  تو اس صورت میں جب بھی کسی عورت سے نکاح کرے گا فوراً اس پر طلاق واقع ہو جائے گی، لیکن اگر کسی نے طرح قسم کھالی جس طرح مذکورہ شخص نے کھائی ہے کہ: " میں کلما کی قسم کھاکرکہتا ہوں کہ میں یہاں نکاح نہیں کرتا" تو یہ قسم معتبر نہیں ہے، اس وجہ سے   اگر مذکورہ شخص اسی جگہ دوبارہ نکاح کرے گا تو  اس قسم کی وجہ سے اس کی بیوی پر کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"إذا طلق الرجل امرأته ثلاثا قبل الدخول بها وقعن عليها فإن ‌فرق ‌الطلاق بانت بالأولى ولم تقع الثانية والثالثة وذلك مثل أن يقول أنت طالق طالق طالق۔"

(کتاب الطلاق،الفصل الرابع فی الطلاق قبل الدخول:ج،1:ص،373:ط،رشیدیہ)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"إذا كان ‌الطلاق ‌بائنا دون الثلاث فله أن يتزوجها في العدة وبعد انقضائها۔"

(کتاب الطلاق، الباب السادس فی الرجعۃ،فصل فیما تحل بہ المطلقۃ:ج،1:ص،472:ط،رشیدیہ)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"لما في البزازية من كتاب ألفاظ الكفر: إنه قد اشتهر في رساتيق شروان أن من قال جعلت ‌كلما أو علي ‌كلما أنه طلاق ثلاث معلق، وهذا باطل ومن هذيانات العوام اهـ فتأمل۔"

(کتاب الطلاق،باب صریح الطلاق:ج،248:ط،سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144305100033

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں