بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غیرکے فعل پر مدعی علیہ سے عدمِ علم پر قسم لی جائے گی


سوال

میری والده کی شادی کے موقع پر اُن کا مہر ایک ہزار روپے مقرر ہوا تھا ، پھر میرے دادا نے میرے نانا ( جو کہ میری والده کی طرف سے مہر پر قبضہ کرنے کے لیے وکیل تھے )کو کہا کہ میں ہزار روپے نہیں دے سکتا ہوں ، میں اس کے بدلے زمین دے دوں گا اور کچھ سامان دے دوں گا، تو میری والده کی اجازت سے میرے نانا اس پر راضی ہوگئے اور میرے دادانے میرے والد صاحب کی طرف سے میرے نانا کو میری والده کےمہر کے ایک ہزار کے عوض زمین اور کچھ سامان دے دیا ، اس وقت لوگوں نے بتایا کہ اس زمین کی قیمت 80 روپے ہے ، میری والده ایک ہزار روپے مہر کے عوض اس زمین اور کچھ سامان لینے پر راضی ہوگئیں ، پھر میری والده کی یہ زمین میرے نانانے  ان کی اجازت کے بغیر فروخت کی ، جس پر میرے دادا نے اُن سے کہا کہ یہ تو میری بہو کی زمین ہے ، لہذا اُن کی اجازت کے بغیر آپ اس کو فروخت نہیں کرسکتے ہیں ، چنانچہ میرے نانا میری والدہ کے پاس آئے اور ان سے کہا کہ آپ کی یہ زمین میں جس آدمی کے ہاتھ فروخت کر رہا ہوں یہ اس کی زمین کے قریب ہے اور اس کو اس کی ضرورت ہے ، آپ مجھے یہ زمین دے دیں تاکہ میں اس کو فروخت کروں اس آدمی پر اور اس کے بدلے  اتنی رقبہ کی زمین آپ میری زمین سے لے لیں ، میری والدہ اس پر راضی ہوگئیں، والد صاحب نے میری والدہ کو اس کی زمین کے بدلے میں اپنی ذاتی  زمین میں اتنى رقبہ کی زمین متعین کرکےدکھائی کہ یہ زمین آپ  اپنی زمین کے بدلے میں  لے لیں ، میری والده اس پر راضی ہوگئیں ، یوں بات ختم ہوگئی ، پھر میرے نانا کا انتقال ہوا، دادا کا بھی انتقال ہوا اور اس وقت اس پورے معاملے پر جو جو لوگ گواہ تھے  وہ سب بھی انتقال کر چکے ہیں ، کیوں کہ اس واقعہ کو کافی عرصہ گزر  چکا ہے ، اب ہم لوگ یعنی  ہماری والده اور ہمارا مطالبہ ہے کہ ہمارے نانا کی زمین میں ہمارے نانا نے ہماری والده کو جتنی زمین دی تھی وہ ہمیں حوالہ کی جائے ، جب کہ ہمارے ماموں کہتے ہیں کہ مجھے اس پورے معاملہ کا کچھ علم نہیں ہے کہ میرے والد نے اپنی بیٹی کو زمین دی تھی اور نہ ہی والد صاحب نے مجھے اس بارے میں کچھ بتایا ہے ، تو ہم یہ مسئله ایک عالم کے پاس لے گئے ، اس عالم نے فریقین کے بیانات سنے، پھر ہم سے ہمارے دعوٰی پر گواہ مانگے تو ہمارے پاس گواه نہیں تھے ، کیوں کہ اس معاملہ کے وقت جولوگ بطور  گوا ہ موجودتھے وہ سب انتقال کر چکے ہیں ، تو اس عالم نے میرے ماموں سے قسم کا مطالبہ کیا تو میرے ماموں  اس بات پر قسم کے لیے تیار ہوئے کہ مجھے نہ اس معاملہ کے بارے میں کچھ علم ہے اور نہ ہی میرے والد صاحب نے مجھے اس بارے میں کچھ بتایا ہے ، تو میں نے کہاکہ قسم تو انکار پر ہوتاہے ، آپ تو عدمِ علم پر قسم کھارہےہو،آپ کوانکار پر قسم کھاناپڑے گا،یعنی آپ یوں قسم کھاؤ گے کہ اللہ کی قسم میرے والد نے اپنی اس بیٹی کے ساتھ مذکورہ معاملہ نہیں کیاہے،لیکن ماموں کہتاہے کہ میں تو اس معاملہ کے وقت نہ خود موجود تھااور نہ مجھے میرے والد صاحب نے کچھ بتایاہے ، مجھے تو اس معاملہ کاعلم ہی نہیں ہے، تو میں انکار پر کیسے قسم کھاؤں ؟ میں تو عدمِ علم پر قسم کھاؤں گا، اب سوال یہ ہے کہ اگرہم دونوں فریق کسی عالم کو فیصل بناتے  ہیں اور ہمارے پاس گواہ نہ ہو تو پھر ہمارے ماموں سے انکار پر قسم لی جائے گی  یا عدمِ علم پر؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل اور اُن کی والدہ کادعوٰی سائل کے ناناکے فعل پر ہے کہ سائل کے نانانےاپنی بیٹی ( سائل کی والدہ ) کے ساتھ مذکورہ معاملہ کیاتھا،اور کسی اورکے فعل پر مدعی علیہ سے عدمِ علم پر قسم لی جاتی ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل کے پاس اپنے دعویٰ پر معتبر ثبوت نہ ہونے كی صورت میں مدعاعليہ ماموں سے عدمِ علم پر قسم لی جائے گی،سائل کااُن سے انکار پر قسم کامطالبہ کرنادرست نہیں ہے۔

فتاوٰ ی ہندیہ میں ہے:

"إن وقعت الدعوى على فعل المدعى عليه من كل وجه بأن ادعى عليه إنك سرقت هذا العين مني أو غصبت يستحلف على البتات، وإن وقعت الدعوى على فعل الغير من كل وجه يحلف على العلم، حتى لو ادعى المدعي دينا على ميت بحضرة وارثه بسبب الاستهلاك أو ادعى أن أباك سرق هذا العين مني أو غصبه مني يحلف الوارث على العلم وهذا مذهبنا كذا في الذخيرة."

(كتاب الدعوٰی، الباب الأول في تفسير الدعوى وركنها وشروط جوازها وحكمها وأنواعها،الفصل الثاني في كيفية اليمين والاستحلاف، 22/4، ط: رشيدية)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"(التحليف على فعل نفسه يكون على البتات) أي القطع بأنه ليس كذلك (و) التحليف (على فعل غيره) يكون (على العلم) أي إنه لا يعلم أنه كذلك لعدم علمه بما فعل غيره ظاهرا."

(كتاب الدعوٰی، سبب الدعوٰى، 552/5، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101098

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں