بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر اللہ سے مدد مانگنا


سوال

تفسیر عثمانی میں "ایاک نعبد وایاک نستعین"کے تحت "کسی متبرک ہستی سے ظاہری استعانت۔۔۔۔ "  کا کیا مطلب ہے؟ مہربانی فرما کر مثال سے واضح کریں۔

جواب

واضح رہے کہ تفسیر عثمانی میں  سورہ فاتحہ کی آیت نمبر 4:"إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ."

کا ترجمہ یہ ہے کہ:"تیری ہی ہم بندگی کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں"

اور اس آیت کی  تفسیر یہ ہے کہ:  اس آیت شریفہ سے معلوم ہوا کہ اس کی ذات پاک کے سوا کسی سے حقیقت میں مدد مانگنی بالکل ناجائز ہے۔ ہاں اگر کسی مقبول بندہ کو محض واسطہ رحمت الہٰی اور غیر مستقل سمجھ کر استعانت ظاہری اس سے کرے تو یہ جائز ہےکہ یہ استعانت درحقیقت حق تعالیٰ ہی سے استعانت ہے۔

بظاہر سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ سائل کو خط کشید عبارت میں اشکال ہوا ہے۔

واضح رہے استعانت (یعنی مدد طلب کرنا) دو قسموں پر ہے۔

استعانت حقیقی:جس سے مدد مانگی جارہی ہے، وہ حقیقتاً مدد کرنے پر قادربھی  ہو،اور مدد کرنے کے لیے کسی غیر کا محتاج نہ ہو  یہ استعانت حقیقی کہلاتی ہے، اور اس پر صرف اللہ  تعالی کی ذات قادر ہے۔

استعانت ظاہری:جس سے مدد مانگی جارہی ہے، وہ ظاہراً تو مدد کرنے پر قدرت رکھتا ہو، لیکن حقیقتاً وہ بھی اللہ تعالی کا محتاج ہو، یعنی اللہ تعالی کی توفیق  اور اعانت کے کے بغیر وہ بھی کسی قسم کی مدد نہ کرسکے۔

حاصل یہ ہے اللہ تعالی کے علاوہ کسی سے مدد طلب کرنا استعانت ظاہری کہلاتا ہے، جیسے کہ کسی سے مالی امداد  وغیرہ طلب کرنا  جائز ہے،  یہ طلب کرنا جائز ہے، اور اس صورت میں  ظاہرا تو وہ شخص مدد کرتا ہے، لیکن حقیقتاً مد د اللہ تعالی کی جانب سے ہی ہوتی ہے، کیوں کہ وہ شخص بھی مدد کرنے کے سلسلے میں اللہ تعالی کا محتاج ہے۔

استعانت  ظاہری کی تمام صورتیں مع احکام و امثال   معارف القرآن میں مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ  نے تفصیل کے ساتھ درج کی ہے، اس کو نقل کیا جارہا ہے۔

معارف القرآن (کاندھلوی) میں ہے:

"(سوال) دربارۂ استعانت بغیر اللہ۔
اس آیت سے یہ مفہوم ہوتا ہے کہ سوائے خدا کے کسی سے مدد نہ مانگی جائے،حالانکہ قرآن و حدیث میں جابجا اس کا ذکر ہے کہ ایک دوسرے کی مدد کرو،بیمار ہو تو علاج کرو، آخر یہ طبیب اور دوا سے استعانت اور استمداد نہیں تو اور کیا ہے لہذا یہ بتلایا جائے کہ وہ کون سی استعانت ہے جو غیر اللہ سے جائز ہے اور کون سی کفر اور شرک ہے۔
جواب : جاننا چاہیے کہ غیر اللہ سے مطلقاً استعانت حرام نہیں ،استعانت بغیر اللہ بعض صورتوں میں کفر اور شرک ہے اور بعض صورتوں میں جائز ہے۔

ضابطہ اس کا یہ ہے کہ :اگر سوائے خدا تعالیٰ کے کسی کو فاعل مستقل اور قادر بالذات سمجھ کر یا بعد عطاء الٰہی اور تفویض خداوندی اس کو قادر مختار جان کر اس سے مدد مانگے تو بلا شبہ کفر اور شرک ہے یا اس شیئ کو تاثیر اور فاعلیت میں مستقل بالذات یا مستقل بالعرض تو نہیں سمجھتا لیکن معاملہ اس کے ساتھ مستقل بالذات کا سا نہیں کرتا لیکن دوسروں کو اس کے استقلال کا تو ہم ہوتا ہے تو یہ استعانت بالغیر ناجائز اور حرام ہوگی۔ اور بعض صورتوں میں کفر اور شرک کا اندیشہ ہے۔ جیسا کہ آئندہ تفصیل سے معلوم ہوگا۔
پہلی صورت :جب کہ غیر اللہ کو فاعل مستقل اور قادر بالذات سمجھے اس کے شرک ہونے میں تو کسی کو بھی کلام نہیں۔

دوسری صورت :یہ ہے کہ غیر کو قادر بالذات سمجھے اس کے شرک ہونے میں تو کسی کو بھی کلام نہیں۔

تیسری صورت یہ ہے کہ غیر کو قادر بالذات تو نہیں سمجھتا لیکن قادر بعطائے الٰہی سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے قدرت اور اختیار عطاء کیا ہے کہ جو امور طاقت بشری سے باہر ہیں، ان میں جس طرح چاہے تصرف کرے اور جس کو چاہے دے اور جس کو چاہے نہ دے، جیسے بادشاہ اپنے وزاء اور حکام کو کچھ اختیارات عطاء کردیتا ہے اور وہ بعد عطائے اختیارات مستقل سمجھے جاتے ہیں،اور پھر بادشاہ کے علم اور ارادہ کو دخل نہیں ہوتا، اسی طرح معاذ اللہ، خدا تعالیٰ نے بھی کچھ اختیارات انبیاء اور اولیاء کو عطاء کیے ہیں اور وہ بعد عطاء الٰہی مستقل اور مختار ہیں۔ مشرکین عرب، ملائکہ اور اصنام کے متعلق بعینہ یہی عقیدہ رکھتے تھے،"ما نعبدھم الا لیقربونا الى الله زلفى"مشرکین ان کو مستقل بالذات نہیں سمجھتے تھے۔ بلکہ ان کو فاعل مستقل بعطاء الٰہی سمجھتے تھے۔ اور یہ کہتے تھے کہ ان کے پاس جو کچھ ہے وہ خدا ہی کا دیا ہے قرآن کریم میں جا بجا اسی عقیدہ کو باطل کیا گیا۔کما قال تعالیٰ:  و یعبدون من دون الله ما لایضرھم و لاینفعھم ، و قال تعالیٰ:ان الذین تعبدون من دون الله لایملکون لکم رزقا فابتغوا عندالله الرزق واعبدوہ۔  یہ نادان یہ نہیں سمجھتے کہ خدائی اور خدائی اختیارات کا کسی طرف منتقل ہونا یا عطاء کیا جانا نہ اختیاراً ممکن ہے اور نہ اضطراراً کفار بغیر عطاء الٰہی کسی چیز پر ان کو قادر نہیں سمجھتے تھے۔"و قال تعالیٰ: قل انی لا املك لکم ضراً و لا رشداًو قال تعالیٰ: قل لا املك لنفسی نفعا ولا ضراً الا ماشاء الله"۔ ان آیات میں بالذات نفع اور ضرر کے مالکیت اور اختیار کی نفی نہیں اس لیے کہ نہ کوئی نفع اور ضرر کے بالذات مالک اور مختار ہونے کا مدعی تھا اور نہ کوئی عاقل اس کو تسلیم کرسکتا ہے کہ سوائے خدا تعالیٰ کے کوئی نفع اور ضرر کا بالذات مالک ہو۔ مشرکین بھی اس کے قائل تھے۔ اصل مالک اور خالق وہی اللہ ہے۔
چوتھی صورت کہ: جب اس غیر کو نہ مستقل بالذات سمجھے نہ مستقل بالعرض لیکن معاملہ اس کے ساتھ مستقل بالذات کا سا کرے۔ مثلاً اس کو یا اس کی قبر کو سجدہ کرے یا اس کے نام کی نذر مانے تو یہ بھی حرام اور شرک ہے لیکن یہ شرک اعتقادی نہیں بلکہ عملی ہے۔ اس کا مرتکب حرام کا مرتکب سمجھا  جائے گا۔ دائرہ اسلام سے خارج نہ ہوگا۔

پانچویں صورت کہ جب استعانت بالغیر میں اس غیر کے استقلال کا ایہام ہوتا ہو جیسے روحانیات سے مدد مانگنا، اگرچہ یہ شخص مستقل نہ سمجھتا ہو لیکن مشرکین چونکہ ارواح کو فاعل مستقل سمجھ کر مدد مانگتے ہیں اس لیے ارواح سے مدد مانگنا قطعا حرام ہوگا۔ حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں تردد اس میں ہے کہ اس شخص کو دائرہ اسلام سے خارج کیا جائے یا نہیں یہ فعل  چوں کہ شرک کا مظہر اتم ہے اس لیے دارئرہ اسلام سے خارج ہوجانے کا قوی اندیشہ ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ اول کی دو صورتیں قطعاً کفر اور شرک ہیں، اور ان کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج ہے اور اخیر کی دو صورتیں قطعا حرام ہیں۔ تردد اس میں ہے کہ ایسے شخص کو کافر اور دائرہ اسلام سے خارج مانا جائے یا نہیں؟ لیکن اگر ایسی شئی سے مدد مانگے کہ جس سے مدد مانگنا کفار اور مشرکین کے شعائر سے ہو ،تو ایسی صورت میں اگر کوئی فقیہ اور مفتی زنار باندھنے والے کی طرح اس پر بھی ظاہر کے اعتبار سے کفر اور شرک کا فتوی دے اور کافر ہونے کا حکم لگائے تو کچھ مضائقہ نہیں، چوں کہ وہ شئ شعار کفر اور شرک سے ہے اس لیے اس کی نیت کا اعتبار نہ کیا  جائے گا۔

البتہ امور عادیہ جو طاقت بشریہ کے تحت داخل ہوں اور کارخانہ عالم اسباب ان کے ساتھ مربوط اور متعلق ہو اور کسی شخص کو ان کے فاعل مستقل ہونے کا تو ہم بھی نہ ہوتا ہو۔ جیسے روٹی کی امداد سے بھوک دفع کرنا اور پانی کی امداد سے پیاس دفع کرنا تو یہ استعانت بالغیر جائز ہے، بشرطیکہ اعتماد محض اللہ پر ہو اور غیر کو محض ایک زریعہ اور وسیلہ اور عون الٰہی کا ایک مظہر سمجھے، جیسے نل محض پانی کے آنے کا راستہ ہے اسی طرح اسباب فیض خداوندی کے راستے ہیں اصل دینے والا وہی ہے اور مشرک یہ سمجھتا ہے کہ یہ نل ہی مجھ کو پانی دے رہا ہے۔ اس لیے نل ہی سے پانی مانگتا ہے اور نل ہی کی خوشامد کرتا ہے۔ مثلاً جو شخص دوا کو محض ایک وسیلہ سمجھے اور طبیب کو محض معالج جانے تو کچھ مضائقہ نہیں لیکن اگر دوا کو مستقل مؤثر سمجھے اور طبیب کو صحت بخشنے والا جانے تو یہ شرک ہوگا جاننا چاہیے کہ اسباب شرعیہ کا بھی وہی حکم ہے کہ جو اسباب عادیہ کا حکم ہے صرف فرق اتنا ہے کہ اسباب عادیہ کا اسباب ہونا عادۃ سے معلوم ہوا اور اسباب شرعیہ کا سبب ہونا شریعت سے معلوم ہوا۔ پس جس طرح اسباب عادیہ سے استعانت اور استمداد جائز ہے اسی طرح اسباب شرعیہ مثل دعا اور رقیہ صبر اور نماز وغیرہ سے بھی استعانت جائز ہے اس لیے کہ ان امور کا اسباب ہونا شریعت سے معلوم ہوا۔ اور امور غیر عادیہ میں اگرچہ غیر کو مظہر عون الٰہی سمجھے اور اصل اعتماد بھی اللہ ہی پر ہو مگر چونکہ امور غیر عادیہ کا تسبب نہ عادۃ ً ثابت ہے نہ من جانب اللہ اور بالفرض اگر ثابت بھی ہو تو قطعی اور دائمی نہیں اس لئے امور غیر عادیہ میں استعانت بغیر اللہ کفر اور شرک تو نہ ہوگی۔ مگر بدعت وضلالت ضرور ہوگی۔

حضرت شاہ عبدالعزیز قدس اللہ سرہ فرماتے ہیں:

درینجا باید فہمید کہ استعانت از غیر بوج ہے کہ اعتماد برآن غیر باشد واو را مظہر عون الٰہی نداند حرام است و اگر التفات محض بجانب حق است واو را یکے از مظاہر عون دانستہ ونظر بکار خانہ اسباب و حکمت او تعالیٰ در آں نمودہ بغیر استعانت ظاہر نماید دور از عرفان نخواہد بود و در شرع نیز جائز ورد است وانبیاء وا ولیاء ایں نوع استعانت بغیر کردہ اند و درحقیقت ایں نوع استعانت بغیر نیست بلکہ استعانت بحضرت حق است لا غیر۔ (فتح العزیز صفحہ 8)
ترجمہ : اس جگہ جاننا چاہیے کہ غیر اللہ سے استعانت اس وقت حرام ہے کہ جب اعتماد اور بھروسہ اس غیر پر ہو اور اس غیر کو امداد الٰہی کا مظہر نہ سمجھے۔ اور اگر التفات اور نظر صرف خدا پر ہو۔ اور اس غیر کو اعانت الٰہیہ کا محض مظہر جان کر کارخانۂ اسباب پر نظر کرتے ہوئے اس غیر سے ظاہری طور پر مدد چاہے تو خلاف عرفان نہیں اور شریعت میں بھی جائز ہے اور حضرات انبیاء اور اولیاء نے بھی غیر اللہ سے اس قسم کی استعانت کی ہے اور چونکہ نظر صرف حق تعالیٰ پر ہے اس لیے یہ استعانت بالغیر نہیں بلکہ درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی سے استعانت ہے۔

اور دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:

"استعانت یا بچیزے است کہ تو ہم استقلال آنچیز در وہم وفہم ہیچ کس از مشرکین و موحدین نمے گزرد۔ مثل استعانت بحبوب وغلات در دفع گرسنگی واستعانت بآب در دفع تشنگی واستعانت برائے راحت بسایۂ درخ تو مانند آں و در دفع مرض بادویہ وعقاقیر ودر تعیین وجہ معاش بامیر وابداشاہ کہ درحقیقت معاوضہ خدمت بمال است وموجب تذلل نیست یا باطباء ومعالجان کہ بسبب تجربہ و اطلاع زائد ازانہا طلب مشورہ است واستقلالے متوہم نمی شود پس ایں قسم استعانت بلا کراہت جائز است زیرا کہ درحقیقت استعانت نیست و اگر استعانت است استعانت بخدا ست ویا بچیز یست کہ تو ہم استقلال در مدارک مشرکین جا گرفتہ مث استعانت بارواح ورحانیات فلکیہ یا عنصریہ یا ارواح سائرہ مثل بہوانی وشیخ سدو زین خاں وایں نوع استعانت عین شرک است ومنافی ملت حنفی." (فتح العزیز ص 37)
ترجمہ : استعانت اور استمداد یا تو ایسی چیز ہے کہ موحدین اور مشرکین کو بھی اس کے مستقل ہونے کا شبہ نہیں ہوتا جیسے بھوک دفع کرنے کے لیے غلہ اور اناج سے مدد حاصل کرنا اور پیاس دفع کرنے کے لیے پانی اور شربتوں سے مدد حاصل کرنا اور راحت آرام حاصل کرنے کے لیے درخت کے سایہ سے مدد حاصل کرنا اور بیماری دفع کرنے کے لیے دواؤں اور بوٹیوں سے مدد حاصل کرنا۔ معاشی امور میں امراء اور بادشاہ سے مدد چاہنا کہ جو درحقیقت معاوضہ خدمت سے موجب تذلل نہیں۔ یا اطباء اور معالجین سے ان کے تجربہ اور زیادتی واقفیت کی بناء پر مشورہ لینا ان صورتوں میں استقلال کا وہم بھی نہیں ہوتا پس اس قسم کی استعانت بلا کراہت جائز ہے۔ اس لیے کہ یہ استعانت حقیقۃً نہیں محض ظاہری استعانت ہے حقیقۃً استعانت خدا تعالیٰ سے ہے۔ یا ایسی چیز کے ساتھ استعانت ہے کہ جس کا مستقل بالتاثیر ہونا مشرکین کے ذہنوں میں جگہ لیے ہوئے ہے جیسے ارواح سے یا روحانیات فلکیہ اور عنصریہ سے استعانت کرنا یا ارواح سائرہ یعنی چلنے پھرنے والی ارواح سے مدد طلب کرنا جیسے بہوانی اور شیخ سدو اور زین خاں اس قسم کی استعانت عین شرک ہے اور ملت حنفیہ اسلامیہ کے بالکل منافی اور مباین ہے۔"

(سورة الفاتحه، آيت:4، ط: مكتبه رحمانيه)

الموسوعہ الفقہیہ الکوتیہ میں ہے:

"استعانة.

‌‌التعريف:

1 - الاستعانة مصدر استعان، وهي: طلب العون، يقال: استعنته واستعنت به فأعانني والمعنى الاصطلاحي لا يخرج عن المعنى اللغوي.

الحكم الإجمالي:

2 - تنقسم الاستعانة إلى استعانة بالله، واستعانة بغيره.

فالاستعانة بالله سبحانه وتعالى مطلوبة في كل شيء: مادي مثل قضاء الحاجات، كالتوسع في الرزق، ومعنوي مثل تفريج الكروب، مصداقا لقوله تعالى: {إياك نعبد وإياك نستعين} (1) . وقوله تعالى: {قال موسى لقومه استعينوا بالله واصبروا} (2) .

وتكون الاستعانة بالتوجه إلى الله تعالى بالدعاء، كما تكون بالتوجه إليه تعالى بفعل الطاعات، لقوله تعالى: {واستعينوا بالصبر والصلاة}(3) 

3 - أما الاستعانة بغير الله، فإما أن تكون بالإنس أو بالجن.

فإن كانت الاستعانة بالجن فهي ممنوعة، وقد تكون شركا وكفرا، لقوله تعالى: {وأنه كان رجال من الإنس يعوذون برجال من الجن فزادوهم رهقا} (4)

4 - وأما الاستعانة بالإنس فقد اتفق الفقهاء على أنها جائزة فيما يقدر عليه من خير، لقوله تعالى: {وتعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان} (1)

وقد يعتريها الوجوب عند الاضطرار، كما لو وقع في تهلكة وتعينت الاستعانة طريقا للنجاة، لقوله تعالى: {ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة}."

(الاستعانة، 17،18/4، ط:دارالسلاسل - الكويت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508102152

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں