بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر ضامن شخص سے نقصان کا مطالبہ کرنا؟


سوال

میں پراپرٹی ایجنٹ کے طور پر ایک آفس میں کام کرتا تھا، ان کے ساتھ میرا معاہدہ کمیشن کا تھا کہ اگر کوئی ڈیل ہو جاتی ہے تو اس میں آدھا کمیشن ہمیں آفس میں دینا ہوتا تھا،ایک دن ہمارے بوس (بڑے)نے ہمیں کہا کہ ملیر میں ہم ایک نیو پروجیکٹ موبائل مال کے نام سے بنا رہے ہیں، جس کے لیے ہم نے اس جگہ کے مالک سے مکمل ایگریمنٹ وغیرہ کیے ہیں اور بلڈر(بنانے والا) اس جگہ کے مالک کا بیٹا ہے، اور ہمارے بوس پروجیکٹ منیجر تھے، ہمیں کہا کہ آپ کلائنٹ(خریدار) لائیں گے جس میں سے ہم آپ کو معقول رقم کمیشن کے طور پر ادا کریں گے، میں نے وہاں اپنے کلائنٹس(خریدار) کی بکنگ کرائی ہے، اب بلڈر (بنانے والا) نے ہمیں دھوکہ دیا ہے، یعنی وہ اب کام نہیں کررہا ،اور بھاگ گیا ہے ،جب کہ اس کا والد رقم سے انکار کرچکا ہے،میں نے اپنے کلائنٹس کی میٹنگ اپنے بوس جو پروجیکٹ منیجر تھے ان سے بھی کرائی ہے، اور بوس نے ان سے ایگریمنٹ لکھا ہے کہ آپ کی رقم مجھ تک پہنچ گئی ہے ،اور میں اس کا ذمہ دار ہوں،پھر بوس نے وہ رقم بلڈر کودی، اور اب بھی وہ بوس کلائنٹ  کے ساتھ بلڈر کے گھر کے چکر لگا رہا ہے،یعنی رقم کی واپسی کے لیے کوششیں کررہا ہے، اب کلائنٹس مجھے بھی تنگ کررہے ہیں کہ آپ ہماری رقم کے ذمہ دار ہیں،جب کہ رقم کی لین دین کے بارے میں میری اُن سے کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔

پوچھنا یہ ہے اس صورت میں میں رقم واپسی کا ذمہ دار ہوں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً مذکورہ معاملہ میں سائل کی حیثیت بروکر (دلّال) کی تھی،اورسائل نے  کلائنٹس (خریداروں) سے رقم کی واپسی کی ذمہ داری قبول نہیں کی تھی،تو اِن کلائنٹس (خریداروں) کی رقم کی ذمہ داری سائل پر نہیں ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي حميد الساعدي رضي الله عنه : أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : لا يحل لامرئ أن يأخذ مال أخيه بغير حقه و ذالك لما حرم الله مال المسلم على المسلم."

( مسند أحمد ابن حنبل ،ج: 39، ص: 18، رقم الحديث: 23605 ،ط: مؤسسة الرسالة)

فتاوی شامی میں ہے:

"لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد ‌بغير ‌سبب ‌شرعي."

(كتاب الحدود ،باب التعزير، ج: 4، ص: 59، ط: سعيد)

درر الحکام فی شرح مجلۃ الاحکام میں ہے:

"لا يجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا ‌سبب ‌شرعي."

(درر الحكام في شرح مجلة الأحكام ، ج: 1، ص: 98، ط: دار الجيل)

العنایۃ شرح الھدایۃ میں ہے:

"فإن ‌مطالبة ‌الدين بغير دين غير متصور."

(کتاب الکفالة ،الکفالة بالمال،ج: 7،ص: 182، ط: دارالفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله ولا يضمن إلخ) اعلم أن الهلاك إما بفعل الأجير أو لا، والأول إما بالتعدي أو لا. والثاني إما أن يمكن الاحتراز عنه أو لا، ففي الأول بقسميه يضمن اتفاقا. وفي ثاني الثاني لا يضمن اتفاقا وفي أوله لا يضمن عند الإمام مطلقا ويضمن عندهما مطلقا. وأفتى المتأخرون بالصلح على نصف القيمة مطلقا، وقيل إن مصلحا لا يضمن وإن غير مصلح ضمن، وإن مستورا فالصلح اهـ ح والمراد بالإطلاق في الموضعين المصلح وغيره....وفي البدائع: لا يضمن عنده ما هلك بغير صنعه قبل العمل أو بعده؛ لأنه أمانة في يده وهو القياس. وقالا يضمن إلا من حرق غالب أو لصوص مكابرين وهو استحسان...وفي الخانية والمحيط والتتمة: الفتوى على قوله."

(باب ضمان الأجیر، ج:6، ص: 65، ط: سعید)

مجمع الضمانات میں ہے:

"الدلال أجير مشترك حتى لو ضاع من يده شيء بلا صنعه لا يضمن عند أبي حنيفة."

(مجمع الضمانات، باب مسائل الإجارة، ص: 52، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144406101345

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں