بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1446ھ 03 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

غیر شرعی امور پر مشتمل ویب سائٹ بنانا


سوال

 میں کمپیوٹر سا ئنس کا طالب علم ہوں اور میں آئندہ سافٹ وئیر ہاؤس جانا چاہتا ہوں،  جہاں دنیا بھر سے ویب سائٹ  اور سافٹ وئیر بنانے کے لیے آرڈر آتے ہیں تو اس میں ہو سکتا ہے کہ سافٹ وئیر  یا ویب سائٹ غیر شرعی کام کے لیے ہو، مثلاً غیر شرعی آڈیو ویڈیو یااس طرح کوئی ویب سائٹ ہو تو کیا میں اس کو بنا سکتا ہو یا نہیں؟ اگر میں اس سے انکار کروں تو سافٹ وئیر  ہاؤس والے  مجھے نکال دیں گے۔

جواب

واضح رہے کہ جن اشیاء کا استعمال جائز اور ناجائز  اور صحیح اور غلط دونوں مقاصد کے لیے  ہوسکتا ہو ، ان کی خرید وفروخت کرنا، کرایہ پر دینا اور مرمت کرنا وغیرہ   جائز ہے، اگر کوئی ایسی اشیاء   کا غلط استعمال کرتا ہے تو اس کا وبال اسی پر ہوگا، البتہ اگر کسی شخص کے بارے میں یقینی طور پر معلوم ہو کہ وہ اس کو ناجائز کام ہی میں استعمال کرے گا تو اس کو مذکورہ اشیاء فروخت کرنا  یا اس کی خدمات دینا  جائز نہیں ہوگا۔

  صورتِ مسئولہ میں جو ویب سائٹ ایسی ہوں کہ جن کا جائز اور ناجائز استعمال دونوں ممکن ہو اور  بنانے والے کے بارے میں یقینی طور پر معلوم نہ ہو کہ وہ اس کو  کن کاموں کے لیے اور کس طرح استعمال کرے گا تو ایسی ویب سائٹ بنانا اور اس پر اجرت لینا  ناجائز نہیں ہوگا، اور جو ویب سائٹ ایسی ہوں جن کا  سرے   سے جائز استعمال موجود نہ ہو بلکہ وہ  یقینی طور پر ناجائز  اور حرام کاموں کے لیے  ہی استعمال ہوتی ہوں یا  باطل کی ترویج کا ذریعہ  ہوں یا بنانے والے کے بارے میں یقینی معلوم ہو کہ وہ اس کو حرام کام ہی میں استعمال کرے گا تو ایسی  ویب سائٹ بنانا جائز نہیں ہوگا، یہ ناجائز اور گناہ کے کام میں تعاون ہوگا، لہذا ایسی ویب سائٹ بنانے سے اجتناب کریں اور متعلقہ ادارے کو شرعی حکم بتا کر    گناہ کے کام میں تعاون سے معذرت کرلیں، اور جو جائز کام ہوں  وہ کرلیں۔

یہ بھی ملحوظ رہے کہ جاندار کی تصویر بنانا یا اس کی ایڈیٹنگ کرنا نیز موسیقی جائز نہیں ہے، لہٰذا  کوئی بھی ویب سائٹ بناتے وقت ان امور سے اجتناب بھی ضروری ہے۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"وقوله تعالى: [وتعاونوا على البر والتقوى ولا تعاونوا على الإثم والعدوان] يأمرتعالى عباده المؤمنين بالمعاونة على فعل الخيرات وهو البر، وترك المنكرات وهو التقوى وينهاهم عن التناصر على الباطل والتعاون على المآثم والمحارم."

(سورة المائدة،الآية: 2 ،10/ 3 ،ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے :

"وكذا لايكره بيع الجارية المغنية والكبش النطوح والديك المقاتل والحمامة الطيارة؛ لأنه ليس عينها منكراً، وإنما المنكر في استعمالها المحظور اهـ  قلت: لكن هذه الأشياء تقام المعصية بعينها لكن ليست هي المقصود الأصلي منها، فإن عين الجارية للخدمة مثلاً والغناء عارض فلم تكن عين المنكر، بخلاف السلاح فإن المقصود الأصلي منه هو المحاربة به فكان عينه منكراً إذا بيع لأهل الفتنة، فصار المراد بما تقام المعصية به ما كان عينه منكر بلا عمل صنعة فيه، فخرج نحو الجارية المغنية؛ لأنها ليست عين المنكر، ونحو الحديد والعصير؛ لأنه وإن كان يعمل منه عين المنكر لكنه بصنعة تحدث فلم يكن عينه." 

 (كتاب الجهاد، مطلب في كراهة بيع ما تقوم المعصية بعينه، 4 /268، ط: سعيد)

الأشباه والنظائر لابن نجيم  ہے:

"القاعدة الثانية: الأمور بمقاصدها كما علمت في التروك. وذكر قاضي خان في فتاواه: إن بيع العصير ممن يتخذه خمرا إن قصد به التجارة فلا يحرم وإن قصد به لأجل التخمير حرم وكذا غرس الكرم على هذا (انتهى)."

(ص:12، الفن الأول، القاعدۃ الثانیة، ط: سعید)

جواہر الفقہ میں ہے:

"ثم السبب ان كان سببا محركا وداعيا إلى المعصية فالتسبب فيه حرام كالإعانة على المعصیة بنص القران كقوله تعالى: " لاتسبوا الذين يدعون من دون الله"، وقوله تعالى " فلا يخضعن بالقول "، وقوله تعالى " لا تبرجن " الآية، وان لم يكن محرکا و داعيا، بل موصلا محضا، وهو مع ذلك سبب قريب بحيث لا يحتاج في إقامة المعصية به إلى إحداث صنعة من الفاعل كبيع السلاح من أهل الفتنة وبيع العصير ممن يتخذه خمرا وبيع الأمرد من يعصي به وإجارة البيت ممن يبيع فيه الخمر و يتخذها كنيسة أو بيت نار و أمثالها، فكله مكروه تحريما بشرط أن يعلم به البائع والأجر من دون تصريح به باللسان، فإنه إن لم يعلم كان معذورا، وإن علم كان داخلا في الإعانة المحرمة، وإن كان سببا بعيدا بحيث لا يفضي إلى المعصية على حالته الموجودة، بل يحتاج إلى إحداث صنعة فيه كبيع الحديد من أهل الفتنة وأمثالها فتكره تنزيها."

(تفصيل الكلام في مسئلة الإعانة على الحرام، ج:2، ص:439 إلى 453، ط: مكتبة دارالعلوم)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144512100428

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں