بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیرسید کا زکوۃ کی رقم سید کو دینے کا حکم


سوال

1:   اگر کوئی غیر  سیّد  صدقہ  یا زکات قبول کرے،  پھر کسی سیّد کو اُس میں سے دے دے،  تو  کیا یہ درست ہے کہ نہیں؟

2:  صدقے  کا گوشت  [ یا کوئی بھی چیز ]  پکانے  کے لیے جو  کم  مقدار  میں  ہو،  اس  میں کچھ اور ملاکر جو زیادہ مقدار میں ہو پکایا جائے، تو کیا اس میں سے سیّد کھا سکتا ہے  کہ نہیں؟

جواب

1:  اگر غیر سیّد مستحقِ  زکوۃ  ہے، اور  وہ  زکوۃ  کی رقم اپنی ملکیت میں لے کر  اپنی مرضی سے کسی  سیّد کو دیتا ہے، تو مذکورہ رقم  غیرسید کے لیے اگرچہ زکوۃ کی رقم تھی، لیکن اس کی طرف سے اپنی ملکیت میں آنے کے بعد  سیّد کو دینا ہدیہ ہوگا، اور   سید   کے  لیے  ہدیہ   لینا جائز ہے، لہذا مذکورہ رقم میں سے سید کو بطور  ہدیہ دینا جائز ہے۔

2: صدقہ  سے مراد اگر  "صدقہ نافلہ"  (عام صدقہ) مراد ہو،  تو اس کا گوشت ہر شخص کھا سکتا ہے، خواہ وہ مال دار ہو، سید ہو یا غیرسید ہو یا صدقہ دینے والے کا قریبی رشتہ دار ہو۔  اور اگر "صدقہ" سے مراد  واجب صدقہ ہے(زکوۃ، صدقہ فطر، کفارہ، نذر) تو ان کا مصرف صرف وہ لوگ ہے جو  صاحبِ  نصاب نہ ہوں اور ان کے لیے زکوۃ  لینا جائز ہو ، لہٰذا صدقۂ واجبہ کے ساتھ غیر صدقے کا گوشت یا اور چیزیں ملاکر پکائی جائیں اور شرعی طور پر اس کی تملیک نہ پائی گئی ہو تو سید کے لیے اس میں سے کھانا درست نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وطاب لسيده وإن لم يكن مصرفا) للصدقة (ما أدى إليه من الصدقات فعجز) لتبدل الملك، وأصله حديث بريرة «هي لك صدقة ولنا هدية» (كما في وارث) شخص (فقير مات عن صدقة أخذها وارثه الغني " و) كما في (ابن سبيل أخذها ثم وصل إلى ماله وهي في يده) أي الزكاة، وكفقير استغنى، وهي في يده فإنها تطيب له،

(قوله: وأصله حديث بريرة) يوهم أنها أهدت إليه - صلى الله عليه وسلم - بعدما عجزت مع أنها أهدت إليه وهي مكاتبة كما في العناية ح. (قوله: هي لك) الذي في الهداية وشروطها " لها " بضمير الغائبة. (قوله: فإنها تطيب له) لما مر أن الخبث في فعل الأخذ. (قوله: لأن الملك لم يتبدل) لأن المباح له يتناوله على ملك المبيح. ونظيره المشتري شراء فاسدا إذا أباح لغيره لا يطيب له،"

(كتاب المكاتب، باب موت المكاتب وعجزه، ج:6، ص:116، ايج ايم سعيد)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144209200708

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں