بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر نبی کے لیے علیہ السلام کا استعمال


سوال

 جامعہ بنوری ٹاؤن اور دارالعلوم وغیرہم کے فتوی کے مطابق غیر نبی  کے لیے "علیہ السلام"  کا استعمال کرنا غلط اور بدعت ہے، لیکن ایک طبقہ اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ امام بخاری وغیرہم نے اپنے کتب  میں حضرت علی رضی اللہ عنہ  و حسنین رضی اللہ عنہما کے لیے  علیہ السلام کا استعمال کیا ہے؟

جواب

"علیہ السلام" لغوی  معنوی اعتبار سے دعائیہ کلمہ ہے،اس  کا معنی ہے "ان پر سلامتی ہو"اس اعتبار سے مذکورہ دعائیہ کلمہ نبی ، غیر نبی سب کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، جیساکہ ہم روز مرہ میں ”  السلام علیکم“  کے جواب میں "وعلیکم السلام" کا لفظ استعمال کرتے ہیں، البتہ اصطلاحی اعتبار سے اس کلمہ کا اصالةً  استعمال انبیاء علیہم الصلاة  و  السلام کے  ساتھ  خاص ہے،اور  "رضی اللہ عنہ"  کے  الفاظ  صحابہ  کرام  رضی  اللہ  عنہم  کے  ساتھ  خاص  ہیں، اور  اسی پر سلفِ  صالحین کا تعامل رہا ہے،  یہ  جمہور اہلِ  سنت والجماعت  کا مسلک ہے، خصوصًا جب کہ غیر نبی کے لیے مذکورہ کلمہ استعمال کرنا اہلِ بدعت و اہلِ ضلال کا شعار بن چکا ہے،اور وہ اس جملے کو اپنے ائمہ کی معصومیت کے اظہار کے لیے استعمال کرنے لگے ہیں ؛  لہذا  غیر نبی کے لیے براہِ راست اس کلمہ کو استعمال کرنے سے اجتناب کیا جائے، البتہ جہاں نبی کریم ﷺ  کا ذکرِ مبارک ہو، اور اس کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یا اہلِ بیتِ کرام رضی اللہ عنہم کا ذکر ہو، تو اصالۃً نبی کریم  ﷺ  کے لیے اور تبعًا صحابہ کرام اور اہلِ بیت رضی اللہ عنہم اجمعین کے لیے استعمال کرنا درست ہوگا۔

جامعہ کے سابقہ فتاویٰ میں  بھی یہی تفصیل مذکور ہے، ملاحظہ ہو:

"واضح رہے کہ کسی بزرگ کے نام کے ساتھ "علیہ السلام" کا لفظ کہنا شرعاً ممنوع نہیں ہے؛ کیوں کہ "علیہ السلام" کا معنیٰ ہے: "اس پر سلامتی ہو"، اور ہم آپس میں بھی جو ایک دوسرے کو سلام کرتے ہیں "السلام علیکم" اس کے بھی یہی معنیٰ ہیں کہ "تم پر سلامتی ہو"، تو شرعاً اس کے کہنے میں کچھ ممانعت نہیں ہے، البتہ اہلِ سنت والجماعت کے ہاں "علیہ السلام"انبیاء کے ساتھ خاص ہے، اور "رضی اللہ عنہ" کے الفاظ صحابۂ کرام کے ساتھ خاص ہیں، اور یہ شعائرِ اہلِ سنت میں سے ہے، جو کوئی اس کے خلاف کرتاہے وہ شعائرِ اہلِ سنت کے خلاف کرتاہے۔ فقط واللہ اعلم"

کتبہ: محمد ولی درویش (17/1/1403)

احادیث کی مختلف کتب   میں   جہاں صحابہ کرام کے  ساتھ  ”علیہ السلام“ کا ذکر ہے   اگر  یہ مان لیا جائے کہ وہ خود مصنف کا لکھا ہوا ہے تو   جمہور اہلِ سنت والجماعت کے مطابق وہ اسی لغوی معنی پر محمول ہے، لیکن چوں کہ اب یہ اہلِ باطل کا شعار ہے، اس لیے  لغوی معنی کے اعتبار سے بھی اس سے اجتناب کا حکم ہے،  لیکن عام طور پر کتبِ احادیث میں بعد  کے ناقلین اور کمپوزر  کی طرف  اس طرح کے اضافہ  کیے گئے ، جس کا احتمال محدثِ کبیر علامہ  ابنِ کثیر رحمہ اللہ   نے بھی اپنی  تفسیر  میں  ذکر کیا ہے، فرماتے ہیں:

"(قُلْتُ) وَقَدْ غَلَبَ هَذَا فِي عِبَارَةِ كَثِيرٍ مِنَ النُّسَّاخِ لِلْكُتُبِ أن ينفرد عَلَيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِأَنْ يُقَالَ عَلَيْهِ السَّلَامُ مِنْ دُونِ سَائِرِ الصَّحَابَةِ أَوْ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ، وَ هَذَا وَ إِنْ كَانَ مَعْنَاهُ صَحِيحًا، لكن ينبغي أن يسوي بَيْنَ الصَّحَابَةِ فِي ذَلِكَ فَإِنَّ هَذَا مِنْ بَابِ التَّعْظِيمِ وَ التَّكْرِيمِ، فَالشَّيْخَانِ وَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عُثْمَانُ أَوْلَى بِذَلِكَ مِنْهُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَجْمَعِينَ."

”عموماً کتاب کے ناقلین   اور کاتبین (کمپوزر بھی اس میں شامل ہیں)  کی عبارتوں میں ایسا ہوتا ہے کہ وہ  خاص طور پر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام کے ساتھ ”علیہ السلام“  یا  ”کرّم اللہ وجہہ“ ذکر کرتے ہیں ، جب کہ دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ  یہ استعمال نہیں کرتے،  اگرچہ  اس کا معنی صحیح ہے، لیکن بہتر یہ  ہے کہ صحابہ کرام  میں  اس میں برابری کی جائے، یہ تعظیم اور تکریم کے باب میں سے ہے؛ اس لیے  حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر اور حضرت عثمان  رضی اللہ تعالیٰ عنہم  اس سے زیادہ  اس کے مستحق ہیں۔“

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 753):

"(و لا يصلي على غير الأنبياء ولا غير الملائكة إلا بطريق التبع) وهل يجوز الترحم على النبي؟ قولان زيلعي.
(قوله: ولا يصلي على غير الأنبياء إلخ) لأن في الصلاة من التعظيم ما ليس في غيرها من الدعوات وهي زيادة الرحمة والقرب من الله تعالى، ولا يليق ذلك بمن يتصور منه خطايا والذنوب إلا تبعا بأن يقول: اللهم صل على محمد وآله وصحبه وسلم، لأن فيه تعظيم النبي صلى الله عليه وسلم زيلعي. واختلف هل تكره تحريما أو تنزيها أو خلاف الأولى؟ وصحح النووي في الأذكار الثاني، لكن في خطبة شرح الأشباه للبيري من صلى على غيرهم أثم وكره وهو الصحيح وفي المستصفى: وحديث «صلى الله على آل أبي أوفى» الصلاة حقه فله أن يصلي على غيره ابتداء أما الغير فلا اهـ. وأما السلام فنقل اللقاني في شرح جوهرة التوحيد عن الإمام الجويني أنه في معنى الصلاة، فلا يستعمل في الغائب ولا يفرد به غير الأنبياء فلا يقال علي - عليه السلام - وسواء في هذا الأحياء والأموات إلا في الحاضر فيقال السلام أو سلام عليك أو عليكم وهذا مجمع عليه اهـ.
أقول: ومن الحاضر السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين، والظاهر أن العلة في منع السلام ما قاله النووي في علة منع الصلاة أن ذلك شعار أهل البدع، ولأن ذلك مخصوص في لسان السلف بالأنبياء عليهم الصلاة والسلام كما أن قولنا عز وجل مخصوص بالله تعالى، فلا يقال: محمد عز وجل وإن كان عزيزا جليلا، ثم قال اللقاني: وقال: القاضي عياض الذي ذهب إليه المحققون، وأميل إليه ما قاله مالك وسفيان، واختاره غير واحد من الفقهاء والمتكلمين أنه يجب تخصيص النبي صلى الله عليه وسلم و سائر الأنبياء بالصلاة والتسليم كما يختص الله سبحانه عند ذكره بالتقديس والتنزيه، ويذكر من سواهم بالغفران والرضا كما قال الله تعالى - رضي الله عنهم ورضوا عنه يقولون ربنا اغفر لنا ولإخواننا الذين سبقونا بالإيمان - وأيضا فهو أمر لم يكن معروفا في الصدر الأول، وإنما أحدثه الرافضة في بعض الأئمة والتشبه بأهل البدع منهي عنه فتجب مخالفتهم اهـ.
أقول: وكراهة التشبه بأهل البدع مقررة عندنا أيضا لكن لا مطلقا بل في المذموم وفيما قصد به التشبه بهم كما قدمه الشارح في مفسدات الصلاة".

«تفسير ابن كثير - ط العلمية» (6/ 422):

"قال الْجُمْهُورُ مِنَ الْعُلَمَاءِ لَا يَجُوزُ إِفْرَادُ غَيْرِ الْأَنْبِيَاءِ بِالصَّلَاةِ لِأَنَّ هَذَا قَدْ صَارَ شِعَارًا للأنبياء إذ ذُكِرُوا، فَلَا يَلْحَقُ بِهِمْ غَيْرُهُمْ فَلَا يُقَالُ: قَالَ أَبُو بَكْرٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ أَوْ قَالَ عَلِيٌّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ، وَإِنْ كَانَ الْمَعْنَى صَحِيحًا، كَمَا لَا يُقَالُ: قَالَ مُحَمَّدٌ عَزَّ وَجَلَّ، وَإِنْ كَانَ عَزِيزًا جَلِيلًا لِأَنَّ هَذَا مِنْ شِعَارِ ذِكْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَحَمَلُوا مَا وَرَدَ فِي ذَلِكَ مِنَ الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ عَلَى الدُّعَاءِ لَهُمْ، وَلِهَذَا لَمْ يَثْبُتْ شِعَارًا لِآلِ أَبِي أَوْفَى وَلَا لِجَابِرٍ وَامْرَأَتِهِ، وَهَذَا مَسْلَكٌ حَسَنٌ.

وَقَالَ آخَرُونَ: لَا يَجُوزُ ذَلِكَ لِأَنَّ الصَّلَاةَ عَلَى غَيْرِ الْأَنْبِيَاءِ قَدْ صَارَتْ مِنْ شِعَارِ أَهْلِ الْأَهْوَاءِ، يُصَلُّونَ عَلَى مَنْ يَعْتَقِدُونَ فِيهِمْ، فَلَا يُقْتَدَى بِهِمْ فِي ذَلِكَ وَاللَّهُ أَعْلَمُ.

ثُمَّ اخْتَلَفَ الْمَانِعُونَ مِنْ ذَلِكَ: هَلْ هُوَ مِنْ بَابِ التَّحْرِيمِ أَوِ الْكَرَاهَةِ التَّنْزِيهِيَّةِ أَوْ خِلَافِ الْأَوْلَى؟ عَلَى ثَلَاثَةِ أَقْوَالٍ، حَكَاهُ الشَّيْخُ أَبُو زَكَرِيَّا النَّوَوِيُّ فِي كِتَابِ الْأَذْكَارِ. ثُمَّ قَالَ:

وَالصَّحِيحُ الَّذِي عَلَيْهِ الْأَكْثَرُونَ أَنَّهُ مَكْرُوهٌ كَرَاهَةَ تَنْزِيهٍ لِأَنَّهُ شِعَارُ أَهْلِ الْبِدَعِ وَقَدْ نُهِينَا عَنْ شِعَارِهِمْ، وَالْمَكْرُوهُ هُوَ مَا وَرَدَ فِيهِ نَهْيٌ مَقْصُودٌ. قَالَ أَصْحَابُنَا وَالْمُعْتَمَدُ فِي ذَلِكَ أَنَّ الصَّلَاةَ صَارَتْ مخصوصة في لسان السلف بالأنبياء، كَمَا أَنَّ قَوْلَنَا عَزَّ وَجَلَّ مَخْصُوصٌ بِاللَّهِ تعالى فَكَمَا لَا يُقَالُ مُحَمَّدٌ عَزَّ وَجَلَّ وَإِنْ كَانَ عَزِيزًا جَلِيلًا لَا يُقَالُ أَبُو بَكْرٍ أو علي صلى الله عليه، هذا لفظ بِحُرُوفِهِ، قَالَ: وَأَمَّا السَّلَامُ؟ فَقَالَ الشَّيْخُ أَبُو مُحَمَّدٍ الْجُوَيْنِيُّ مِنْ أَصْحَابِنَا: هُوَ فِي مَعْنَى الصَّلَاةِ فَلَا يُسْتَعْمَلُ فِي الْغَائِبِ وَلَا يُفْرَدُ بِهِ غَيْرُ الْأَنْبِيَاءِ فَلَا يُقَالُ عَلِيٌّ عَلَيْهِ السَّلَامُ وَسَوَاءٌ فِي هَذَا الْأَحْيَاءُ وَالْأَمْوَاتُ، وَأَمَّا الحاضر فيخاطب به فيقال: سلام عليك، وسلام عليكم أَوِ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَوْ عَلَيْكُمْ، وَهَذَا مُجْمَعٌ عَلَيْهِ انْتَهَى مَا ذَكَرَهُ.

(قُلْتُ) وَقَدْ غَلَبَ هَذَا فِي عِبَارَةِ كَثِيرٍ مِنَ النُّسَّاخِ لِلْكُتُبِ أن ينفرد عَلَيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ بِأَنْ يُقَالَ عَلَيْهِ السَّلَامُ مِنْ دُونِ سَائِرِ الصَّحَابَةِ أَوْ كَرَّمَ اللَّهُ وَجْهَهُ، وَهَذَا وَإِنْ كَانَ مَعْنَاهُ صَحِيحًا، لكن ينبغي أن يسوي بَيْنَ الصَّحَابَةِ فِي ذَلِكَ فَإِنَّ هَذَا مِنْ بَابِ التَّعْظِيمِ وَالتَّكْرِيمِ، فَالشَّيْخَانِ وَأَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ عُثْمَانُ أَوْلَى بِذَلِكَ مِنْهُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ أَجْمَعِينَ."

نیز درج ذیل لنک پر جامعہ کا فتوی ملاحظہ فرمائیں:

علیہ السلام اور رضی اللہ عنہ کا استعمال

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200449

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں