بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مستحق نے زکوٰۃ وصول کرلی ہو تو کیا حکم ہے؟


سوال

میری خالہ  سعودی عرب میں ہیں،  ان کے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے وہ لوگ صاحبِ  نصاب ہیں،  لیکن پھر بھی  نمازی و متعلقین ان کے بیوی بچوں کو زکوٰۃ کی رقم دیتے ہیں، بعض اوقات ان کو کہا بھی جاتا ہے ہم مستحق زکوٰۃ  نہیں  ہیں لیکن پھر بھی وہ دے کر چلے جاتے ہیں، بعض اوقات زکوٰۃ کی رقم کو ہدیہ کہہ کر دے جاتے ہیں، اب یہ جو رقم ہمیں دی جاتی ہے اگر لوگوں کو واپس کریں تو وہ ناراض ہوتے ہیں؟ اس کا ہمارے لیے کیا حکم ہے؟  اس رقم کو کسی دوسرے مستحق کو دے دیں، ہر رقم لینے سے پہلے اس کی تحقیق کرنا مشکل ہے ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر آپ کی خالہ صاحبِ  نصاب ہیں اور لوگ انہیں زکات کی مد میں سے پیسے دیں تو ان کے لیے وہ رقم لینا جائز نہیں ہے، اس سے ان لوگوں کی زکات بھی ادا نہیں ہوگی  اور  جس شخص کے بارے میں یقین ہو کہ وہ زکات کی رقم سے پیسے دے رہا ہو تو  اس کو وضاحت کے ساتھ بتادیا جائے کہ ہم زکات کے مستحق نہیں ہیں ، اس لیے ہمارے لیے زکات لینا جائز نہیں ہے، اس کے باوجود اگر وہ لوگ رقم چھوڑ کر چلے جائیں تو اول کوشش کریں کہ انہیں دوبارہ واپس کردیں،  ورنہ اسے خود استعمال کرنے کے بجائے کسی مستحقِ زکات  شخص کو دے دیں۔

اور جو لوگ  زکات کے علاوہ نفلی صدقات یا عطیات وغیرہ سے  ہدیہ دیں  یا جو رقم ہدیہ کہہ کر دیں اور آپ کو تحقیق نہ ہو کہ یہ زکات ہے، اس رقم کا استعمال  جائز ہوگا، ہر رقم وصول کرنے سے پہلے تحقیق ضروری تو نہیں ہے، لیکن جہاں اندازہ ہو کہ یہ زکات کی مد میں رقم دے رہا ہے، اس سے پوچھ لیا جائے۔

الفتاوى الهندية (1 / 189):
"لايجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابًا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضًا للتجارة أو لغير التجارة فاضلًا عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي. و الشرط أن يكون فاضلًا عن حاجته الأصلية، و هي مسكنه، و أثاث مسكنه و ثيابه و خادمه، و مركبه و سلاحه، و لايشترط النماء؛ إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان، كذا في الكافي. و يجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، و إن كان صحيحًا مكتسبًا، كذا في الزاهدي. و لايدفع إلى مملوك غني غير مكاتبه، كذا في معراج الدراية."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144109201164

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں