بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مستحق افراد کا صدقہ وصول کرنا


سوال

ہمارا ایک حفظ کا  مدرسہ ہے اس میں طلباء سے ماہانہ فیس لی جاتی ہے لیکن کچھ طلباء کے والدین ایسے ہیں جو مجبوری کی وجہ سے مکمل فیس ادا نہیں کر سکتے ۔آدھی فیس یا اس سے بھی کم دیتے ہیں اور داخلہ فیس بھی نہیں دے سکتے ۔لیکن وہ زکوۃ  کے مستحق بھی نہیں ہیں اور ہمارا ایک ویلفیئر ادارہ بھی ہے جس میں لوگ ہمیں زکوۃ کے علاوہ مثلا صدقہ وغیرہ کی رقم بھی دیتے ہیں اور ہمیں اس بات کا اختیار دیتے ہیں کہ جہاں آپ مناسب سمجھیں وہاں خرچ کر دیں۔ اب معلوم یہ کرنا ہے کہ یہ صدقہ کی مد میں حاصل ہونے والی رقم ہم ان لوگوں کی فیس کی مد میں جو لوگ کسی مجبوری کی وجہ سے فیس نہیں دے سکتےاپنے مدرسے میں جمع کرا سکتے ہیں ؟

جواب

صورت مسؤلہ میں  اگر صدقہ ادا کرنے والوں نے یہ مکمل اختیار دیا ہو کہ آپ جہاں مناسب سمجھیں وہاں صدقے کی اس رقم کو خرچ کریں تو ایسے والدین جو زکوٰۃ کے مستحق نہ ہوں ان کی جانب سے  ان کے بچوں کی فیس کی مد میں  رقم  مدرسے میں جمع کروائی جا سکتی ہے۔البتہ اس میں بہتر یہ ہے کہ  اس قسم کے بچوں کی فیس کی ادائیگی کیلئے  عطیات کے عنوان سے کوئی فنڈ قائم کیا جائے۔

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"(قوله: و بني هاشم ومواليهم) أي لايجوز الدفع لهم لحديث البخاري «نحن - أهل بيت - لاتحل لنا الصدقة» ولحديث أبي داود «مولى القوم من أنفسهم، وإنا لاتحل لنا الصدقة»  وقال المصنف في الكافي: وهذا في الواجبات كالزكاة والنذر والعشر والكفارة أما التطوع والوقف فيجوز الصرف إليهم؛ لأن المؤدي في الواجب يطهر نفسه بإسقاط الفرض فيتدنس المؤدى كالماء المستعمل، وفي النفل تبرع بما ليس عليه فلا يتدنس به المؤدى كمن تبرد بالماء." 

(كتاب الزكاة، ج:2، ص:266، ط:دارالكتاب الإسلامي) 

فقط والله اعلم 


فتوی نمبر : 144307101849

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں