بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مسلم ملک میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے ہرمقصد کوبیان کرنے کاحکم


سوال

میں اسکالرشپ پر میڈیکل کے شعبہ میں اعلیٰ تعلیم (ایم فل) حاصل کرنے کے لیے چین (ایک غیر مسلم ملک) میں اپلائی کر رہا ہوں۔ داخلے کے لیے ہمیں مقصد کا بیان لکھنا ہوتا ہے جس میں ہمیں یہ بتانا ہوتا ہے کہ ہم اس فیلڈ (شعبہ) کے لیے کیوں اہل ہیں اور اس فیلڈ (شعبہ) کو منتخب کرنے کا ہمارا مقصد کیا ہے۔ میں نے اپنی اہلیت بتائی ہے جو میرا مضبوط تعلیمی پس منظر ہے اور مقصد بہتر معاش حاصل کرنا اور اپنی قوم اور ملک کی خدمت کرنا ہے۔ جبکہ میری نیت اس ذریعہ معاش سے اپنی زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ دین کی خدمت کی بھی ہے۔ مجھے دل میں خیال آیا کہ اگر میں انہیں اسلام کی خدمت کرنے کی اپنی نیت کے بارے میں بتاؤں تو وہ کافر (غیر مسلم) ہونے کے ناطے اسے ناپسند کریں گے، کیو نکہ غیر مسلم اسلام کی ترقی کو برداشت نہیں کرتے اور اس سے میرا داخلہ منسوخ ہو سکتا ہے۔ اور اگر نہ بتایا تو کُفر کے وسوسے آتے ہیں کہ دائرہ اسلام سے خارج تو نہیں ہو جاؤں گا۔ دوسرا یہ وہم ہوتا ہے کہ اگر میں نے انہیں اپنے اسلام کی خدمت کرنے کی خواہش کے بارے میں بتایا تو یہ دکھاوا ہو جائے گا جبکہ میں یہ کام صرف اللہ کی رضا کے لیے کرنا چاہتا ہوں۔ میں بہت زیادہ پریشان ہو رہا ہوں، مجھے کیا کرنا چاہیے؟ انہیں بتانا چاہئے یا نہیں جب  کہ میں اسلام کی خدمت کا اپنے رب کی رضا کے لیے ارادہ رکھتا ہوں، یا صرف یہ بتانا کہ اہلیت میری مضبوط تعلیمی پس منظر اور مقصد بہتر معاش حاصل کرنا اور اپنی قوم اور ملک کی خدمت کرنا ہے کافی ہے۔ برائے مہربانی شریعت کے مطابق میری مکمل رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں اعلی تعلیم حاصل کرکے اپنے معاش کی ضرورت پوری کرنے کے ساتھ ساتھ دین کی خدمت کرنے کی نیت سے غیر مسلم ممالک میں جاکر نوکری کرنا شرعاًجائز ہے بشرطیکہ اپنے ایمان واعمال واخلاق کی حفاظت کرتے ہوئے چلے، اور  تعلیم حاصل کرتے وقت اپنے ہر مقصد کو کھول کر  بیان کرنا ضروری بھی نہیں ہے  ،بلکہ جھوٹ سے بچ کراجمالی طور پر جواب دینابھی کافی ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں سائل کا اعلی تعلیم  حاصل کرنے کہ لیے غیر اسلامی ملک میں اپلائی کرتے وقت ان کو صرف یہ کہنا کہ میرا مقصد  اس اپلائی سے اعلی تعلیم اور بہتر معاش حاصل کرنا اور اپنی قوم اورملک کی خدمت کرنا ہے، کافی ہے ۔باقی دین کی خدمت کے بارے میں بتاناضروری نہیں ہے، اور  نہ بتانے سے سائل کی دل میں جو کفر کے وسوسے  اور دوسرے قسم کے وہم پیدا ہورہے ہیں ان کا شریعت میں کو ئی اعتبار نہیں ہے ،اور صرف وسوسہ آنے سے کو ئی دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا ۔

 الموسوعة الفقهية الكويت میں ہے :

"وقد يكون الكذب مباحا أو واجبا، فالكلام وسيلة إلى المقاصد، وكل مقصود محمود يمكن تحصيله بغير الكذب يحرم الكذب فيه، وإن لم يمكن تحصيله إلا بالكذب جاز الكذب فيه، ثم إن كان تحصيل ذلك القصد مباحا كان الكذب مباحًا، و إن كان واجبًا كان الكذب واجبًا ... و إذا كان لايتم مقصود الحرب أو إصلاح ذات البين أو استمالة قلب المجني عليه إلا بكذب فالكذب فيه مباح، إلا أنه ينبغي أن يحترز منه ما أمكن".

(ج: 34 ص: 205 ط: دارالسلاسل)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144410100146

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں