بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مسلموں سے ان کے مذہبی اور غیر مذہبی تہواروں میں کھانا وغیرہ لینے کا حکم


سوال

کوئی بھی غیر مسلم اپنے کسی مذہبی یا غیر مذہبی تہوار پر کچھ پکا کر گوشت کے علاوہ مجھے کھانے کے لیے دیتا ہے،توکیا یہ میرے لیے بطور ِ مسلمان حلال  ہے؟

جواب

واضح رہے کہ غیر مسلموں کے مذہبی تہواروں میں ان کےساتھ کسی بھی طرح شریک ہونا جائز نہیں ہے،چاہے وہ ان کی خوشی میں بنفسِ نفیس حاضر ہوکر ہویا ان کے تہوار پر خوشی ومسرت کا اظہار کرکے ہو،البتہ ان کے مذہبی یا غیرمذہبی تہواروں میں گوشت کے علاوہ آئے ہوئے کھانے یا مٹھائی وغیرہ میں اگرحرام کی آمیزش نہ ہواور وہ کھاناانہوں نے اپنے معبودانِ باطلہ کےنام پر بھی نہ چڑھایاہو،  اس کھانےکو لے کراستعمال کرناجائز ہے،تاہم پھر بھی احتیاط بہتر ہے ۔

اسی طرح پڑوسی ہونے کے ناطے ان کے گھر کھانے پینے کی اشیاء بھجوانااورغیر مسلم کی بیماری میں اخلاقاً اس کی عیادت کرنا بھی جائز ہے،البتہ ان کےساتھ حد سے زیادہ میل جول رکھنا جس سے عقائد متاثر ہوں یا ان کو گہرا دوست ( دلی دوست )   بناناجائز نہیں ہے۔

"البحر المحيط في التفسير"میں ہے:

"‌وطعام ‌الذين أوتوا الكتاب ‌حل ‌لكم طعامهم هنا هي الذبائح كذا قال معظم أهل التفسير. قالوا: لأن ما كان من نوع البر والخبز والفاكهة وما لا يحتاج فيه إلى ذكاة لا يختلف في حلها باختلاف حال أحد، لأنها لا تحرم بوجه سواء كان المباشرة لها كتابيا، أو مجوسيا، أم غير ذلك. وأنها لا يبقى لتخصيصها بأهل الكتاب فائدة."

(ص:١٨٢،ج:٤،سورۃ المائدة،الآية:٥،ط:دار الفكر،بيروت)

"كنز العمال"میں ہے:

"‌من ‌كثر ‌سواد قوم فهو منهم، ومن رضي عمل قوم كان شريكا في عمله."

(ص:٢٢،ج:٩،کتاب الصحبة،الباب الأول،ط:مؤسسة الرسالة)

"رد المحتار على الدر المختار"میں ہے:

"(و) جاز (عيادته) بالإجماع.

(قوله وجاز عيادته) أي عيادة مسلم ذميا نصرانيا أو يهوديا، لأنه نوع بر في حقهم وما نهينا عن ذلك، وصح أن النبي الله عاد يهوديا مرض بجواره، هداية."

(ص:٣٨٨،ج:٦،کتاب الحظر والإباحة،فصل في البيع،ط:ایج ایم سعید)

کفایت المفتی میں ہے:

’’غیر مسلم سے سوکھا دانہ،غلہ،آٹا وغیرہ لے کر کھاناپکانااورکھاناجائز ہے،جب کہ غیر مسلم نے اپنی خوشی سے دیا ہے تو اس کو لینےاور کھانے میں کوئی قباحت نہیں۔‘‘

(ص:١٣١،ج:٩،كتاب الحظر والاباحة،ط:دار الاشاعت)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

’’سوال:

اگر کسی مسلمان کے رشتہ دار ہندو کے گاؤں میں رہتے ہوں اور ہندو کے تہوار ہولی دیوالی و غیره پر پکوان، پوری، کچوری وغیرہ پکاتے ہیں، ان کا کھانا ہم لوگوں کو جائز ہے یا نہیں؟

الجواب حامداً ومصلياً :

ہندو کے تہوار ہولی دیوالی وغیرہ میں شریک ہونا ہرگز جائز نہیں اس سے تو بہ کرنا لازم ہے؛ کیوں کہ وہ کبیرہ گناہ ہے، حتی کہ بعض فقہا نے اس کو کفر لکھا ہے  اور جو کھانا کچوری وغیرہ ہندو کسی اپنے ملنے والے مسلمان کو دیں اس کا نہ لینا بہتر ہے، لیکن اگر کسی مصلحت سے لے لیا تو شرعاً اس کھانے کو حرام نہ کہا جائے گا، اور جو مسلمان ہولی وغیرہ میں ہندو کی موافقت کی وجہ سے پکا ئیں تو اس سے ہرگز نہ لینا چاہیے ۔‘‘

(ص:٣٤،ج:١٨،كتاب الحظر والاباحۃ،باب الاکل والشرب،ط:ادارۃ الفاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144502100828

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں