بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مسلموں کی عبادت گاہوں میں جانا اور وہاں کھانے کا حکم


سوال

گردوارہ  میں کھانا درست ہے یا نہیں؟

جواب

مذکورہ سوال کے جواب سے قبل بطورِ تمہید یہ جان لینا ضروری ہے کہ وہ مقامات جہاں غیر اللہ کی عبادت کی جاتی ہے، یا کفار اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرتے ہیں، چوں کہ یہ مقامات معصیت کا گڑھ اور شیطان کی آماج گاہ ہوتے ہیں، اس لیے مسلمانوں کو ان مقامات پر جانے کی شرعاً اجازت نہیں ہے، فقہاءِ  کرام نے ایسے شخص کو تعزیری سزا کا مستحق قرار دیا ہے جو کفار کی عبادت گاہ  مستقل جاتاہو۔

لہذا مسلمانوں کا مندروں،  چرچ ، گردوارہ اورکفار کی دیگر عبادت گاہوں میں  ان کی دعوت پر جانا ،ان کی تقاریب میں شرکت کرنا اور وہاں کھاناکھانا جائز نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی شخص  کسی خاص شرعی غرض سے وہاں  گیا ہو، محض سیر وتفریح مقصود نہ ہواور کھانے کی نوبت آجائے اور کھانا حلال اور برتن پاک ہوں تو کھانے کی گنجائش ہوگی۔

امداد الفتاوی میں ہے:

”میلۂ پرستش گاہِ ہنود میں عموماً مسلمانوں کا جانا اور خصوصاً علماء کا جانا  اور  یہ بھی نہیں کہ کوئی ضرورتِ شدیدہ دنیاوی ہی ہو، محض سیر وتماشے کے لیے، سخت ممنوع و قبیح ہے ۔۔۔  ممانعت ایسی جگہ جانے سے دوسری آیت سے ثابت ہے: {فلاتقعد بعد الذكرى مع القوم الظالمين}  یعنی بعد نصیحت کے قومِ ظالمین کے پاس مت بیٹھ ، یعنی کفار سے اختلاط مت کر، اور حدیث میں ہے: ”من كثر سواد قوم فهو منهم“.(جو کسی جماعت کی تعداد بڑھائے اس کا شمار اُن ہی میں سے ہے) اور حدیثِ صحیح میں آیا ہے کہ قربِ قیامت میں ایک لشکر کعبہ معظمہ کے ارادہ سے چلے گا، جب قریب پہنچیں گے تو سب زمین میں دھنس جائیں گے، ازواجِ مطہرات میں سے ایک بی بی نے عرض کیا کہ یارسول اللہ  اس میں تو بازاری دکان دار لوگ بھی ہوں گے کہ ارادہ لڑنے کا نہ رکھتے ہوں گے،  ان کا کیا قصور ؟ آپ ﷺ نے فرمایا  کہ اللہ تعالیٰ کا عذاب  عام آتا ہے، اس وقت دھنس جائیں گے، پھر قیامت کے روز اپنی اپنی نیت کے موافق محشور (جمع) ہوں گے۔انتہیٰ۔پس جب یہ لوگ باوجودیکہ ضرورتِ تجارت کے بسبب ان کے ساتھ شامل ہوں گے، عذابِ الٰہی سے نہ بچ سکیں گے تو جس کو یہ بھی ضرورت نہ ہو وہ کیوں کر اس غضب وعتاب سے جو مجمعِ کفار میں من اللہ نازل ہواکرتا ہے محفوظ رہے گا“۔(4/270، ط: مکتبہ دارالعلوم کراچی)

البحر الرائق میں ہے:

"(قَوْلُهُ: وَلَايَحْلِفُونَ فِي بُيُوتِ عِبَادَتِهِمْ)؛ لِأَنَّ الْقَاضِيَ لَايَحْضُرُهَا بَلْ هُوَ مَمْنُوعٌ عَنْ ذَلِكَ، كَذَا فِي الْهِدَايَةِ، وَلَوْ قَالَ: الْمُسْلِمُ لَايَحْضُرُهَا لَكَانَ أَوْلَى؛ لِمَا فِي التَّتَارْخَانِيَّة: يُكْرَهُ لِلْمُسْلِمِ الدُّخُولُ فِي الْبِيعَةِ وَالْكَنِيسَةِ، وَإِنَّمَا يُكْرَهُ مِنْ حَيْثُ إنَّهُ مَجْمَعُ الشَّيَاطِينِ، لَا مِنْ حَيْثُ إنَّهُ لَيْسَ لَهُ حَقُّ الدُّخُولِ، وَالظَّاهِرُ أَنَّهَا تَحْرِيمِيَّةٌ؛ لِأَنَّهَا الْمُرَادَةُ عِنْدَ إطْلَاقِهِمْ، وَقَدْ أَفْتَيْت بِتَعْزِيرِ مُسْلِمٍ لَازَمَ الْكَنِيسَةَ مَعَ الْيَهُودِ". ( ٧ / ٢١٤،ط: دار الكتاب الاسلامی)

مجمع الأنهر في شرح ملتقی الأبحر میں ہے:

"(وَلَا يَحْلِفُونَ) أَيْ الْكُفَّارُ (فِي مَعَابِدِهِمْ) ؛ لِأَنَّ فِيهِ تَعْظِيمًا لَهَا وَالْقَاضِي مَمْنُوعٌ عَنْ أَنْ يَحْضُرَهَا وَكَذَا أَمِينُهُ؛ لِأَنَّهَا مَجْمَعُ الشَّيَاطِينِ لَا أَنَّهُ لَيْسَ لَهُ حَقُّ الدُّخُولِ. وَفِي الْبَحْرِ وَقَدْ أَفْتَيْتُ بِتَعْزِيرِ مُسْلِمٍ لَازَمَ الْكَنِيسَةَ مَعَ الْيَهُودِ وَالنَّصَارَى". ( ٢ / ٢٦٠، ط: دار احياء التراث العربي) 

البدایہ والنھایہ میں ہے :

"وقد روى أحمد بن مروان الدينوري، عن محمد بن عبد العزيز، عن أبيه، عن الهيثم بن عدي، عن أسامة بن زيد بن أسلم، عن أبيه عن جده أسلم مولى عمر بن الخطاب أنه قدم دمشق في تجار من قريش، فلما خرجوا تخلف عمر لبعض حاجته، فبينما هو في البلد إذا البطريق يأخذ بعنقه، فذهب ينازعه فلم يقدر، فأدخله دارا فيها تراب وفأس ومجرفة وزنبيل، وقال له: حول هذا من ههنا إلى ههنا، وغلق عليه الباب وانصرف فلم يجئ إلى نصف النار.قال: وجلست مفكرا ولم أفعل مما قال لي شيئا.فلما جاء قال: مالك لم تفعل ؟ ولكمني في رأسي بيده قال: فأخذت الفأس فضربته بها فقتلته وخرجت على وجهي فجئت ديرا لراهب فجلست عنده من العشي، فأشرف علي فنزل وأدخلني الدير فأطعمني وسقاني، وأتحفني، وجعل يحقق النظر في، وسألني عن أمري فقلت: إني أضللت أصحابي.فقال: إنك لتنظر بعين خائف، وجعل يتوسمني ثم قال: لقد علم أهل دين النصرانية أني أعلمهم بكتابهم، وإني لاراك الذي تخرجنا من بلادنا هذه، فهل لك أن تكتب لي كتاب أمان على ديري هذا ؟ فقلت: يا هذا لقد ذهبت غير مذهب.فلم يزل بي حتى كتبت له صحيفة بما طلب مني، فلما كان وقت الانصراف أعطاني أتانا فقال لي اركبها، فإذا وصلت إلى أصحابك فابعث إلي بها وحدها فإنها لا تمر بدير إلا أكرموها.ففعلت ما أمرني به، فلما قدم عمر لفتح بيت المقدس أتاه ذلك الراهب وهو بالجابية بتلك الصحيفة فأمضاها له عمر واشترط عليه ضيافة من يمر به من المسلمين، وأن يرشدهم إلى الطريق.رواه ابن عساكر وغيره. "۔(7/69داراحیاء التراث العربی بیروت) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144107201086

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں