بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیرمسلم سے عملیات سیکھنے کا حکم


سوال

غیر مسلم سے عملیات سیکھنے کا شرعًا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے از روئے شرع جائز مقاصد کے حصول کے لیے جائز طریقہ سے عملیات اور وظائف کرنا (یعنی قرآنی آیات اور احادیث میں مذکورہ کلمات پر مشتمل وظائف کرنا) درست ہے، تاہم ایسے عملیات سیکھنا یا کرنا جو شریعت کی تعلیمات کے خلاف ہوں یا اس میں شرکیہ الفاظ کا سہارا لیا جاتاہو شرعًا بالکل حرام ہے۔

بصورتِ مسئولہ غیرمسلم کے عملیات عمومًا شرکیہ کلمات پر مشتمل ہوتے ہیں یا ایسے کلمات پر مشتمل ہوتے ہیں جن کا معنی معلوم نہیں ہوتا، اور اس عمل کے دوران وہ غیر اللہ بلکہ شیاطین سے مدد بھی مانگتے ہیں، لہذا غیر مسلم سے علمیات کا سیکھنا ازروئے شرع جائز نہیں ہے، ایک  مسلمان کے لیے وہ اذکار و اوراد کافی ہونے چاہییں جن کا ثبوت قرآن و حدیث سے ہے۔

حدیث شریف میں ہے:

"حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اہلیہ حضرت زینب رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے میرے گلے میں ایک دھاگا دیکھا تو پوچھا: یہ کیا ہے؟ میں نے کہا: یہ دھاگا ہے جس میں میرے لیے دم کیا گیا ہے، کہتی ہیں: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے وہ دھاگا لیا اور اسے کاٹ دیا، پھر فرمایا: اے عبداللہ (ابن مسعود) کے گھر والو تم لوگ شرک سے مستغنی ہو! میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے: بے شک یہ (ناجائز) دم، منتر اور تعویذ گنڈے شرک ہیں۔ میں نے کہا: آپ یہ کیسے کہتے ہیں، جب کہ میری آنکھ (قبل از اسلام) دکھتی تھی تو میں فلاں یہودی کے پاس دم کے لیے جاتی تھی، جب وہ دم کرتا تھا تو آنکھ ٹھیک ہوجاتی تھی! اس پر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ شیطان کا کام تھا، وہ تمہاری آنکھ میں انگلی سے چوکا لگاتا تھا، اور جب اس میں منتر پڑھا جاتا تو شیطان رک جاتا تھا، تمہارے لیے یہ دعا کافی ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے: 

’’  أَذْهِبِ الْبَأْسَ رَبَّ النَّاسِ، وَ اشْفِ أَنْتَ الشَّافِيْ، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاءُكَ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَماً‘‘.

ترجمہ: تکلیف دور کردیجیے اے لوگوں کے رب! اور شفا بخش دیجیے آپ ہی شفا دینے والے ہیں، آپ کی دی ہوئی شفا کے علاوہ کوئی شفا نہیں، ایسی شفا دے دیجیے جو کسی بیماری کو نہ چھوڑے۔

(مشكوة المصابيح، كتاب الطب والرقى، الفصل الثانى، ج:2، ص:1284، ط:المكتبة الإسلامى،بيروت)

حجة الله البالغة  میں ہے:

"وَأما الرقي فحقيقتها التَّمَسُّك بِكَلِمَات لَهَا تحقق فِي الْمثل وَأثر، وَالْقَوَاعِد الملية لَا تدفعها مَا لم يكن فِيهَا شرك لَا سِيمَا إِذا كَانَ من الْقُرْآن أَو السّنة أَو مِمَّا يشبههما من التضرعات إِلَى الله."

(اللباس والزينة والأوانى وغيرها، ج:2، ص:300، ط:دارالجيل.بيروت)

الموسوعة الفقهية میں ہے:

"أَجْمَعَ الْفُقَهَاءُ عَلَى جَوَازِ التَّدَاوِي بِالرُّقَى عِنْدَ اجْتِمَاعِ ثَلاَثَةِ شُرُوطٍ: أَنْ يَكُونَ بِكَلاَمِ اللَّهِ تَعَالَى أَوْ بِأَسْمَائِهِ وَصِفَاتِهِ، وَبِاللِّسَانِ الْعَرَبِيِّ أَوْ بِمَا يُعْرَفُ مَعْنَاهُ مِنْ غَيْرِهِ، وَأَنْ يَعْتَقِدَ أَنَّ الرُّقْيَةَ لاَ تُؤَثِّرُ بِذَاتِهَا بَل بِإِذْنِ اللَّهِ تَعَالَى. فَعَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَال: كُنَّا نَرْقِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَقُلْنَا: يَا رَسُول اللَّهِ كَيْفَ تَرَى فِي ذَلِكَ؟ فَقَال: اعْرِضُوا عَلَيَّ رُقَاكُمْ، لاَ بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ شِرْكٌ وَمَا لاَ يُعْقَل مَعْنَاهُ لاَ يُؤْمَنُ أَنْ يُؤَدِّيَ إِلَى الشِّرْكِ فَيُمْنَعُ احْتِيَاطًا."

(باب التداوى بالرقى والتمائم، ج:11، ص:123، ط:دارالسلاسل) 

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح میں ہے:

"رقية فيها اسم صنم أو شيطان أو كلمة كفر أو غيرها مما لايجوز شرعاً، ومنها ما لم يعرف معناها".

(كتاب الطب والرقى، ج:7، ص:2827، ط:دارالفكر. بيروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144202200767

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں