بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مسلم ممالک کی ائیر لائنز اور ہوٹلوں میں ملنے والے کھانے کا حکم


سوال

غیر مسلم ممالک کی ایئر لائن میں سفر یا ان کے ہوٹلوں میں جب بھی قیام کرنا پڑتا ہے تو کھانے پینے کے حوالے سے کچھ دقتیں پیش آتی ہیں، ان کے حوالے سے راہ نمائی مطلوب ہے۔

 ایئر لائن والے کھانے کے لیے ایک برگر نما کوئی چیز دیتے ہیں جس کے اندر انڈااور کچھ سبزی ہوتی ہے اور اس کے علاوہ پینے کے لیے مشروب دیتے ہیں، اس میں جوس ہوتا ہے اور اس کے علاوہ بوتلیں اور چائے وغیرہ ہوتی ہے تو کیا ان چیزوں کا کھانا پینا جائز ہوگا؟ چائے کے لیے جو دودھ دیتے ہیں اس کے باہر بعض مرتبہ گائے کی تصویر بنی ہوتی ہے بعض مرتبہ نہیں ہوتی۔

ایسے ہی ہوٹل میں صبح ناشتے میں بریڈ، ابلے ہوئے انڈے، جوس، دودھ اور چائے وغیرہ ہوتی ہے، کیا ان چیزوں کا کھانا جائز ہے؟ اگر وہ ان چیزوں کو حلال کہیں تو کیا ان کے کہے کا کوئی اعتبار ہو گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر غیر مسلم ممالک کی ائیر لائن یا ہوٹلوں میں عام کھانے کی چیزوں کے بارے میں ان کی طرف سے ان اشیاء کےحلال ہونے کی وضاحت مل جائے اور گوشت کے بارے میں اس کے کسی مسلمان سے خریدے ہوئےہونے کی یاکسی مسلمان کےذبح کرنے کی وضاحت مل جائے، تو اس صورت میں اس کو کھانابلاشبہ جائز ہے۔

اور اگر وضاحت نہ ملے بلکہ ان چیزوں کی حلت وحرمت کے بارے میں شک ہوتوحکم یہ ہے کہ گوشت کے علاوہ چیزوں میں جب تک اس کے حرام ہونے کا کوئی ثبوت نہ مل جائے تب تک اس کوکھانے میں کوئی حرج نہیں ہے،البتہ گوشت کاحکم یہ ہے کہ جب تک اس کے حلال ہونے کا یقین نہ ہوجائے تب تک اس کو کھاناجائز نہیں ہے۔

لہذا غیر مسلم ممالک کی ائیر لائن اور ہوٹلوں میں انڈے اور سبزی سے بناہوابرگر،نیز ناشتہ میں جوس،دودھ اورچائے وغیرہ کھاناپیناجائز ہے،جب تک کہ اس کے حرام ہونے کایقین نہ ہوجائے،البتہ اگر کھانے میں گوشت کی کوئی قسم آجائے توجب تک کہ اس کے حلال ہونے کا یقین نہ ہوجائے،تب تک وہ نہ کھائی جائے۔

الإختيار لتعليل المختار  میں ہے:

"ويقبل في المعاملات قول ‌الفاسق، ولا يقبل في ‌الديانات إلا قول العدل حرا كان أو عبدا، ذكرا أو أنثى.

قال: (ويقبل في المعاملات قول ‌الفاسق) لأنها يكثر وجودها من الناس، فلو شرطنا العدالة حرج الناس في ذلك، وما في الدين من حرج، فيقبل قول الواحد عدلا كان أو فاسقا، حرا كان أو عبدا، ذكرا أو أنثى، مسلما أو كافرا دفعا للحرج،قال: (ولا يقبل في ‌الديانات إلا قول العدل حرا كان أو عبدا، ذكرا أو أنثى) لأن الصدق فيه راجح باعتبار عقله ودينه، سيما فيما لا يجلب له نفعا ولا يدفع عنه ضررا، ولهذا قبلت رواية الواحد العدل للأخبار النبوية، وإنما اشترطنا العدالة لأنها مما لا يكثر وقوعها كثرة المعاملات، ولأن ‌الفاسق متهم والكافر غير ملتزم لها فلا يلزم المسلم بقوله، بخلاف المعاملات فإنه لا مقام له في دارنا إلا بالمعاملة، ولا معاملة إلا بقبول قوله، ولا كذلك ‌الديانات والمعاملات كالإخبار بالذبيحة والوكالة والهبة والهدية والإذن ونحو ذلك، والديانات كالإخبار بجهة القبلة وطهارة الماء."

(ص:١٦٣،ج:٤،کتاب الكراهية،فصل في مسائل مختلفة،ط:دار الكتب العلمية)

حاشية ابن عابدين  میں ہے:

"(ويقبل قول كافر) ولو مجوسيا (قال اشتريت اللحم من كتابي فيحل أو قال) اشتريته (من مجوسي فيحرم) ولا يرده بقول الواحد وأصله أن خبر الكافر مقبول بالإجماع في المعاملات لا في ‌الديانات وعليه يحمل قول الكنز ويقبل قول الكافر في الحل والحرمة يعني الحاصلين في ضمن المعاملات لا مطلق الحل والحرمة.

(قوله أو قال اشتريته من مجوسي فيحرم) ظاهره أن الحرمة تثبت بمجرد ذلك، وإن لم يقل ذبيحة مجوسي وعبارة الجامع الصغير، وإن كان غير ذلك لم يسعه أن يأكل منه قال في الهداية معناه إذا قال كان ذبيحة غير الكتابي والمسلم اهـ تأمل. وفي التتارخانية قبيل الأضحية عن جامع الجوامع لأبي يوسف من اشترى لحما فعلم أنه مجوسي وأراد الرد فقال ذبحه مسلم يكره أكله اهـ ومفاده أن مجرد كون البائع مجوسيا يثبت الحرمة، فإنه بعد إخباره بالحل بقوله ذبحه مسلم كره أكله فكيف بدونه تأمل."

(ص:٣٤٤،ج:٦،کتاب الحظر والإباحة،ط:ایج ایم سعید)

مجمع الأنهر شرح ملتقي الأبحر  میں ہے:

"واعلم أن ‌الأصل ‌في ‌الأشياء كلها سوى الفروج الإباحة قال الله تعالى: هو الذي خلق لكم ما في الأرض جميعا، وقال: كلوا مما في الأرض حلالا طيبا، وإنما تثبت الحرمة بعارض نص مطلق أو خبر مروي فما لم يوجد شيء من الدلائل المحرمة فهي على الإباحة."

(ص:٥٦٨،ج:٢،کتاب الأشربة،ط:دار إحياء التراث)

بدائع الصنائع  میں ہے:

"(ومنها) أن يكون مسلما أو كتابيا فلا تؤكل ذبيحة أهل الشرك والمجوسي والوثني وذبيحة المرتد أما ذبيحة أهل الشرك فلقوله تعالى: وما أهل لغير الله، وقوله عز وجل :وما ذبح على النصب، أي للنصب وهي الأصنام التي يعبدونها، وأما ذبيحة المجوس فلقوله عليه الصلاة والسلام: سنوا بالمجوس سنة أهل الكتاب غير ناكحي نسائهم ولا آكلي ذبائحهم،ولأن ذكر اسم الله تعالى على الذبيحة من شرائط الحل عندنا لما نذكر ولم يوجد."

(ص:٤٥،ج:٥،کتاب الذبائح والصیود،فصل في بيان شرط حل الأكل في الحيوان المأكول،ط:دار الکتب العلمية)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144505100807

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں