بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیرمسلم کے ساتھ کھانے پینے کا حکم


سوال

کیا ہم غیر مسلموں کے ساتھ کھانا کھا سکتے ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں غیر مسلم کے برتن اگر پاک ہے، اور کھانا بھی کوئی حرام چیز پر مشتمل نہیں ہےتو ان کے ساتھ کھانا کھانا جائز ہے،تاہم ان سے قلبی  دوستی لگانا  جائز نہیں ہے،نیز اگر ان سے تعلق کے نتیجے میں اپنے دینی نقصان کا اندیشہ ہو تو ان سے میل ملاقات سے اجتناب کرنا چاہیے، ان كو فائده هو تو جار  ی رکھیں۔

قرآن کریم میں باری تعالی کا ارشاد ہے:

" لَايَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكٰفِرِينَ أَوْلِيَآءَ مِنْ دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللّٰهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَنْ تَتَّقُوْا مِنْهُمْ تُقَاةً وَّيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللّٰهِ الْمَصِيرُ ."
ترجمہ:" مسلمانوں کو چاہیے کہ کفار کو (ظاہراً یا باطناً) دوست نہ بناویں  مسلمانوں (کی دوستی) سے تجاوز کرکے ، اور جو شخص ایسا (کام) کرے گا سو وہ شخص اللہ کے ساتھ (دوستی رکھنے کے) کسی شمار میں نہیں، مگر ایسی صورت میں کہ تم ان سے کسی قسم کا (قوی) اندیشہ رکھتے ہو۔ اور اللہ تعالیٰ تم کو اپنی ذات سے ڈراتا ہے اور خدا ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔"

(سورۃ آلِ عمران، رقم الآیۃ:28، ترجمہ:بیان القرآن)

فتاویٰ عالمگیری  میں ہے:

"قال محمد - رحمه الله تعالى - ويكره الأكل والشرب في أواني المشركين قبل الغسل ومع هذا لو أكل أو شرب فيها قبل الغسل جاز ولا يكون آكلا ولا شاربا حراما وهذا إذا لم يعلم بنجاسة الأواني فأما إذا علم فأنه لا يجوز أن يشرب ويأكل منها قبل الغسل ولو شرب أو أكل كان شاربا وآكلا حراما وهو نظير سؤر الدجاجة إذا علم أنه كان على منقارها نجاسة فإنه لا يجوز التوضؤ به والصلاة في سراويلهم نظير الأكل والشرب من أوانيهم إن علم أن سراويلهم نجسة لا تجوز الصلاة فيها وإن لم يعلم تكره الصلاة فيها ولو صلى يجوز ولا بأس بطعام اليهود والنصارى كله من الذبائح وغيرها ويستوي الجواب بين أن يكون اليهود والنصارى من أهل الحرب أو من غير أهل الحرب وكذا يستوي أن يكون اليهود والنصارى من بني إسرائيل أو من غيرهم كنصارى العرب ولا بأس بطعام المجوس كله إلا الذبيحة، فإن ذبيحتهم حرام ولم يذكر محمد - رحمه الله تعالى - الأكل مع المجوسي ومع غيره من أهل الشرك أنه هل يحل أم لا وحكي عن الحاكم الإمام عبد الرحمن الكاتب أنه إن ابتلي به المسلم مرة أو مرتين فلا بأس به وأما الدوام عليه فيكره كذا في المحيط".

(کتاب الکراهية، الباب الرابع عشر في أهل الذمة والأحكام التي تعود إليهم، ج:5، ص:347، ط:مکتبه رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411100798

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں