بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مسلم کی میت پر جانا


سوال

کیا غیر مسلم کی میت میں یا تدفین کے بعد ان کے گھر جا سکتے ہیں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں کسی غیر مسلم کےہاں میت ہوجائے تو ایسی صورت میں انسانیت کےناطے تعزیت کے لیے  ان کے اہل وعیال کے پاس جانا جائزہے، بشرطیکہ اصلاح اور اچھی نیت ہو، مداہنت(خوشامد ) کی صورت نہ ہو، اور تعزیت میں میت کے لیے استغفار کی بجائے  یہ کہے: ’’اللہ تعالیٰ آپ کو نیک بنائے اور اس کا بہتر بدلہ دے‘‘، البتہ  غیر مسلموں  کے مذہبی معاملات اور رسومات میں شرکت کرنا جائز نہیں ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"قوله :(وفي عيادة المجوسي قولان)...... قلت:..... وفي النوادر جار يهودي أو مجوسي مات ابن له أو قريب ينبغي أن يعزيه، ويقول أخلف الله عليك خيرا منه، وأصلحك وكان معناه أصلحك الله بالإسلام يعني رزقك الإسلام ورزقك ولدا مسلما كفاية".

(كتاب الحظر والاباحة، فصل في البيع، ج:6، ص:388، ط:سعيد)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"واختلفوا في عيادة الفاسق والأصح أنه لا بأس بها وإذا مات الكافر قال لوالده أو قريبه في تعزيته ‌أخلف ‌الله عليك خيرا منه وأصلحك أي أصلحك بالإسلام ورزقك ولدا مسلما لأن الخيرية به تظهر كذا في التبيين."

(كتاب الكراهية،الفصل الخامس عشر في الكسب، ج:5،ص:348، ط: ماجدية)

مرقاة المفاتيح  میں ہے:

"(فمرض، فآتاه النبي - صلى الله عليه وسلم - يعوده) : فيه دلالة على جواز عيادة الذمي. في الخزانة: لا بأس ‌بعيادة ‌اليهودي، واختلفوا في عيادة المجوسي، واختلفوا في عيادة الفاسق، والأصح أنه لا بأس به". 

(كتاب الجنائز، [باب عيادة المريض وثواب المرض]، ج: 3، ص: 1145، ط: دار الفكر،بيروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144405100127

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں