بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیرمسلم خاتون کا اپنے غیر مسلم شوہر سے چھٹکارا پانے کے لیے اسلام لانے کا حکم


سوال

ہمارے پاس ایک عیسائی عورت کام کرتی ہے، اس کی بیٹی صرف اپنے شوہر کے ظلم سے نجات پانے اور اس سے نکاح ختم کرنے کے لیے مسلمان ہونا چاہ رہی ہے، تاکہ شوہر سے نکاح ختم ہو جائے، تو کیا ایسا کرنا صحیح ہوگا؟

جواب

بصورتِ مسئولہ مذکورہ عیسائی خاتون کا دارالاسلام میں رہتے ہوئے محض اسلام لانے سے اپنے شوہر سے نکاح ختم نہیں ہوگا، بلکہ اس کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ اوّلًا مذکورہ خاتون کے شوہر پر اسلام پیش کیا جائےگا، اگر شوہر اسلام قبول کرلیتا ہے تو مذکورہ خاتون بدستور اپنے شوہر کے نکاح میں ہی رہے گی، البتہ اگر  شوہر پر اسلام پیش کیاگیا اور شوہر نے اسلام قبول کرنے سے انکار کیا، تو اس کے بعد   کوئی مسلمان قاضی دونوں  کے درمیان تفریق کرے گا، مسلمان قاضی کی دونوں کے درمیان تفریق کے بعد مذکورہ خاتون کا نکاح اپنے شوہر سے ختم ہوجائےگا،  اور پھر عدت گزارنےکے بعد مذکورہ خاتون کے  لیے کہیں اور نکاح کرنا جائز ہوگا۔

باقی سائل کے اس جملے  کہ  "صرف اپنے شوہر کے ظلم سے نجات پانے اور اس سے نکاح ختم کرنے کے لیے مسلمان ہونا چاہ رہی ہے؛ تاکہ شوہر سے نکاح ختم ہو جائے"  سے  سائل کا کیا مقصد ہے؟ یعنی (العیاذ باللہ) مذکورہ عورت دل سے اسلام قبول نہیں کر رہی، بلکہ عیسائی شوہر سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے اسلام کا اظہار کر رہی ہے، اور دل میں کفر ہی ہے، تو  واضح رہے کہ اسلام کا اظہار کرنے سے گو وہ مسلمان ہی شمار ہوگی، اور مذکورہ بالا طریقے کے مطابق اس کا نکاح فسخ بھی ہوجائے گا، لیکن عند اللہ وہ مسلمان شمار نہیں ہوگی، کیوں کہ ایمان کے لیے دل کی تصدیق ضروری ہے، لہٰذا مذکورہ خاتون کو چاہیے کہ جب وہ اسلام  کا اظہار کر رہی ہے تو صرف اظہار نہ کرے، بلکہ اسے دل سے  اخلاص کے ساتھ قبول کرے، اللہ تعالیٰ کی معاونت ونصرت بھی رہےگی، محض کسی کی ظلم سے نجات پانے کے  لیے اسلام  کے اظہار کو آلہ و ذریعہ بنانا تو ایک دھوکا  ہے۔  اور   ہر عمل کا دارومدار نیت پر ہوتا ہے، اگر نیت میں اخلاص ہوگا تو ان شاء اللہ تعالیٰ،  اللہ تعالیٰ آگے کی زندگی میں آسانیاں فرمائیں گے، اور اگر نیت ہی میں اخلاص نہ ہو محض ایک دھوکا  ہو، تو پہلے جس مشکل سے نجات پائی ہے، ہوسکتا ہے آگے اس سے بھی بڑے بڑے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وإذا) (أسلم أحد الزوجين المجوسيين أو امرأة الكتابي عرض الإسلام على الآخر، فإن أسلم) فيها (وإلا) بأن أبى أو سكت (فرق بينهما...)

(قوله: أو سكت) غير أنه في هذه الحالة يكرر عليه العرض ثلاثا احتياطا، كذا في المبسوط نهر (قوله فرق بينهما) وما لم يفرق القاضي فهي زوجته، حتى لو مات الزوج قبل أن تسلم امرأته الكافرة وجب لها المهر: أي كماله وإن لم يدخل بها لأن النكاح كان قائما ويتقرر بالموت فتح، وإنما لم يتوارثا لمانع الكفر."

(باب نكاح الكافر، ج:3، ص:188، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144204200478

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں