کیا ایک مسلمان کسی کرسچن عورت کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا کھاسکتا ہے؟ جب کہ وہ ایک با اعتماد گھرانے میں بطورِ خانساماں کام کر رہی ہو؟
صورتِ مسئولہ میں گھر میں کام کرنے والی بااعتماد غیر مسلم خانساماں کے ہاتھ کے بنے ہوئے جائز اور پاک کھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، البتہ بہتر یہی ہے کہ گھر میں کھانا مسلمان عورت سے ہی بنایا جائے تاکہ اس کھانے میں کسی قسم کا شبہ نہ ہو، اور برکت ہو۔
تفسیر ابن کثیر میں ہے:
"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ ... وأما نجاسة بدنه فالجمهور على أنه ليس بنجس البدن والذات؛ لأن الله تعالى أحل طعام أهل الكتاب."
(4/ 116، سورة التوبة، ط: دارالكتب العلمية، بيروت)
البحر الرائق میں ہے:
"قال محمد - رحمه الله تعالى-: يكره الأكل والشرب في أواني المشركين قبل الغسل ومع هذا لو أكل أو شرب فيها جاز إذا لم يعلم بنجاسة الأواني وإذا علم حرم ذلك عليه قبل الغسل، والصلاة في ثيابهم على هذا التفصيل ولا بأس بطعام اليهود والنصارى من أهل الحرب ولا فرق بين أن يكونوا من بني إسرائيل أو من نصارى العرب ولا بأس بطعام المجوس كلها إلا الذبيحة. اهـ."
(8/ 232، كتاب الكراهية، ط: دار الكتاب الإسلامي)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144403100614
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن