کیا اسماعیلیوں کے پیسے سے مسجد بنانا جائز ہے یانہیں؟
صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی اسماعیلی اپنے عقیدے کے مطابق نیکی کا کام سمجھ کر مسجد کی تعمیر میں خرچ کر رہا ہے اور اس کے تعاون کے بعد اس سے مسلمانوں کو دینی یا دنیوی نقصان کا اندیشہ بھی نہ ہو تو اس کے پیسے مسجد کی تعمیر میں استعمال کرنا جائز ہے۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
" الذمي أن يكون قربة عندنا وعندهم كالوقف على الفقراء أو على مسجد القدس."
(كتاب الوقف، مطلب قد يثبت الوقف بالضرورة، ج: 4، ص:341، ط:سعيد)
البحرالرائق میں ہے:
"وأما الإسلام فليس من شرطه فصح وقف الذمي بشرط كونه قربة عندنا وعندهم."
(كتاب الوقف، شرائط الوقف، ج:5، ص:204، ط:دار الكتاب الإسلامي)
فتاویٰ محمودیہ میں ہے:
"سوال: کسی غیر مسلم کا روپیہ مسجد کی عمارت میں صرف کرنا کیسا ہے؟
الجواب حامداً ومصلیاً:
اگر کوئی غیر مسلم مسجد میں روپیہ وغیرہ دے اور بنیتِ حصولِ ثواب یعنی اس کو عبادت سمجھ کر تو شرعاً اس کا مسجد میں لینا درست ہے، اور اگر کوئی اور مانع ہو مثلاً: اس روپیہ کی وجہ سے کسی فتنہ کا اندیشہ ہو، یا اہلِ اسلام اور اہلِ مسجد پر احسان سمجھ کر دے، یا احسان کا اظہار کرے وغیرہ وغیرہ تو اَمرِ آخر ہے، اس لیے بہتر صورت یہ ہے کہ وہ روپیہ کسی مسلم کو دیدے اور پھر وہ مقروض یا دیگر مسلم اس روپیہ کو مسجد میں دیدے اور اس روپیہ کو تعمیر ِ مسجد میں خرچ کرنا درست ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اَعلم۔"
(کتاب الوقف، باب احکام المسجد، مسجد کے لیے چندہ جمع کرنے کا بیان، ج:15، ص:139، ط:ادارۃ الفاروق)
فقط واللہ اَعلم
فتوی نمبر : 144506101043
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن