اگر کوئی غیر مسلم ان الفاظ سے کلمہ پڑھ لے(لا الہ الا الرحمن،لا الہ الا الرحیم)یعنی لفظ اللہ کے بجائے الرحمن یا الرحیم پڑھ لے،تو کیا وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوجائے گا یا نہیں؟
2۔کیا لفظ’’اللہ‘‘اللہ تعالی کی ذات کے لیے معرفہ ہےیا نہیں؟
واضح رہے کہ ایمان لانے کے لیے ضروری ہے کہ اللہ کی ذات کے ما سوا تمام چیزوں کی معبود ہونے کی نفی کردی جائے،جس طرح لفظ’’ اللہ ‘‘ سے اللہ کی ذات کے علاوہ کی طرف نسبت نہیں کی جاتی،اس طرح لفظ ’’الرحمن‘‘ سے بھی اللہ کے ذات کے ماسوا کی طرف نسبت نہیں کی جاتی اور’’ الرحیم‘‘ کے لفظ سے اللہ کے ما سوا کی طرف نسبت کی جاتی ہے۔
1۔صورتِ مسئولہ میں اگر کوئی غیر مسلم’’لاالہ الا اللہ‘‘ کے بجائے ’’لا الہ الا الرحمن‘‘پڑھ لے اور وہ دل سے رحمن کے لفظ سے اللہ کی ذات مراد لے رہا ہو،تو وہ مسلمان ہوجائے گا،اگر’’ لا الہ الا اللہ‘‘ کے بجائے” لاالہ الاالرحمن“ پڑھے اور لفظ”اللہ“ عناد،بغض کی وجہ سے نہ پڑھے یا پہلے سے معلوم ہو کہ یہ لفظ”الرحمن“ سے کسی اور ذات کی طرف اشارہ کرتا ہوں یا لفظ ”الرحمن“ سے اللہ کی ذات مراد نہیں لیتا،تو وہ مسلمان نہیں ہوگا۔
اگر کوئی غیر مسلم” لاالہ الا اللہ“کے بجائے ” لا الہ الا الرحیم“ پڑھ لے تو وہ مسلمان نہیں ہوگا کیوں کہ لفظ” الرحیم“ جس طرح اللہ کی ذات کے لیے بولا جاتا ہے، اسی طرح مخلوق کے لیے بھی بولا جاتا ہے، جب کہ ایمان لانے کے لیے ضروری ہے کہ اللہ کی ذات معبود کے سوا ہر غیر معبود کی نفی کی جائے،جب کہ لفظ”الرحیم“میں اللہ کی ذات کے ماسوا کی طرف بھی نسبت کی جاتی ہے۔
2۔ جی ہاں، لفظ”اللہ“ اللہ کی ذات کے لیے معرفہ ہے۔
قرآن پاک میں ہے:
"قُلْ ادْعُوا اللَّهَ أَوْ ادْعُوا الرَّحْمَنَ أَيّاً مَا تَدْعُوا فَلَهُ الأَسْمَاءُ الْحُسْنَى."(بنی اسرائیل 110)
ترجمہ: "آپ فرمادیجییئے کہ خواہ اللہ کہہ پکارو یا رحمن کہہ کر پکارو جس نام سے بھی پکارو گے سو اس کے بہت اچھے اچھے نام ہے"۔(بیان القرآن)
قرآن پاك ميں ہے:
" لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمْ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ ."( سورة التوبة 128)
ترجمه: "اے لوگو تمہارے پاس ایک ایسے پیغمبر تشریف لائے ہیں جو تمہاری جنس( بشر) سے ہیں جن کو تمہاری مضرت کی بات نہایت گراں گزرتی ہے،جو تمہارے منفعت کے بڑے خواہش مند رہتے ہیں(یہ حالت تو سب کے ساتھ ہے بالخصوص) ایمانداروں کے ساتھ بڑے شفیق( اور) مہربان ہیں"۔(بیان القرآن)
فتح الباری شرح الصحیح البخاری میں ہے:
"وإن من قال: لا إله إلا الرحمن حكم بإسلامه إلا إن عرف أنه قال ذلك عنادا، وسمى غير الله رحمانا، كما وقع لأصحاب مسيلمة الكذاب."
(كتاب التوحيد، باب قول الله تبارك وتعالى: قل ادعوا الله أو ادعوا الرحمن أيا ما تدعوا فله الأسماء الحسنى، 359/13، ط: دار المعرفة)
عمدۃ القاری شرح الصحیح البخاری میں ہے:
"وذكر اسمه تعالى أعم من أن يكون: باسم الله، أو: باسم الرحمن، فجاز الرحمن أعظم، كما جاز: الله أكبر، لأنهما في كونهما ذكرا سواء، قال الله تعالى: {ولله الأسماء الحسنى فادعوه بها} (الأعراف: 180) وقال صلى الله عليه وسلم: (أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا: لا إله إلا الله) ، فمن قال لا إله إلا الرحمن أو العزيز كان مسلما، فإذا جاز ذلك في الإيمان الذي هو أصل، ففي فروعه أولى."
(أبواب صفة الصلاة، باب إيجاب التكبير وافتتاح الصلاة، 269/5، ط: إحياء التراث العربي)
بذل المجہود فی شرح ابو داود میں ہے:
"وذكر اسمه تعالى أعم من أن يكون باسم الله أو باسم الرحمن، فجاز الرحمن أعظم كما جاز الله أكبر، لأنهما في كونهما ذكرا سواء، قال الله تعالى: {ولله الأسماء الحسنى فادعوه بها} (4)، وقال صلى الله عليه وسلم: "أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا: لا إله إلا الله"، فمن قال: لا إله إلا الرحمن أو العزيز كان مسلما، فإذا جاز ذلك في الإيمان الذي هو أصل، ففي فروعه أولى، انتهى ملخصا بقدر الحاجة."
(كتاب الصلاة، باب تحريمها التكبير وتحليلها التسليم، 543/5، ط: مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند)
شرح المشکاۃ للطیبی میں ہے:
"(الله) (قض): قيل: أصله (لاها) بالسريإنية، فعرب. وقيل: عربي وضع لذاته سبحأنه كالعلم له؛ لأنه يوصف ولا يوصف به؛ ولأنه لابد من اسم يجرى عليه صفاته، وليصلح له غيره، فتعين أن يكون هو اسمه، ولأنه لو كان وصفا لم يكن قولنا: ((لا إله إلا الله)) توحيدا، كمثل لا إله إلا الرحيم، فأنه لا يمنع لشركة."
(كتاب الدعوات، كتاب أسماء الله تعالي، 1769/6، ط: مكتبة نزار مصطفى الباز)
تفسیر بیضاوی میں ہے:
"والرحمن الرحيم اسمان بنيا للمبالغة من رحم، كالغضبان من غضب، والعليم من علم، والرحمة في اللغة: رقة القلب، وانعطاف يقتضي التفضل والإحسان، ومنه الرحم لانعطافها على ما فيها. وأسماء الله تعالى إنما تؤخذ باعتبار الغايات التي هي أفعال دون المبادي التي تكون انفعالات. والرحمن أبلغ من الرحيم، لأن زيادة البناء تدل على زيادة المعنى كما في قطع وقطع وكبار وكبار، وذلك إنما يؤخذ تارة باعتبار الكمية، وأخرى باعتبار الكيفية، فعلى الأول قيل: يا رحمن الدنيا لأنه يعم المؤمن والكافر، ورحيم الآخرة لأنه يخص المؤمن، وعلى الثاني قيل: يا رحمن الدنيا والآخرة، ورحيم الدنيا، لأن النعم الأخروية كلها جسام، وأما النعم الدنيوية فجليلة وحقيرة، وإنما قدم والقياس يقتضي الترقي من الأدنى إلى الأعلى، لتقدم رحمة الدنيا، ولأنه صار كالعلم من حيث إنه لا يوصف به غيره لأن معناه المنعم الحقيقي البالغ في الرحمة غايتها، وذلك لا يصدق على غيره لأن من عداه فهو مستعيض بلطفه وإنعامه يريد به جزيل ثواب أو جميل ثناء أو مزيج رقة الجنسية أو حب المال عن القلب، ثم إنه كالواسطة في ذلك لأن ذات النعم ووجودها، والقدرة على إيصالها، والداعية الباعثة عليه، والتمكن من الانتفاع بها، والقوى التي بها يحصل الانتفاع، إلى غير ذلك من خلقه لا يقدر عليها أحد غيره. أو لأن الرحمن لما دل على جلائل النعم وأصولها ذكر الرحيم ليتناول ما خرج منها، فيكون كالتتمة والرديف له. أو للمحافظة على رؤوس الآي."
(سورة الفاتحة، ج: 1، ص: 27، ط: دار إحياء التراث العربي)
المسائل العقدية المتعلقة باسم الله عز وجل میں ہے:
"فهو أعرف المعارف بإجماع الأدباء والنحاة وسائر العلماء، كيف لا ومسماه أعرف المعارف له في كل شيء آيات بينات، وعلامات باهرات، وحجج واضحات نيراأت، تدل على وجوب وجوده وعلو جبروته ولذا سمى الله ذاته باسم الظاهر."
(المطلب الأول: الخصائص اللفظية لاسم الله عز وجل، ص: 138، ط: دار منار التوحيد)
معنى” لا إله إلا الله “الزرکشی میں ہے:
"قال سيبويه اسم الله تعالى أعرف المعارف وروي أنه رئي في المنام وقد نال خيرا كثيرا بهذه الكلمة."
(ص: 106، ط: دار الاعتصام)
معارف القرآن میں ہے:
"رحمن اور رحیم دونوں رحمت سے مشتق ہیں اور دونوں مبالغہ کے صیغے ہیں، اختلاف اس میں ہے کہ کسی میں مبالغہ زیادہ ہے جمہور کا قول یہ ہے کہ رحمن میں بہ نسبت رحیم کے زیادہ مبالغہ ہے اس لیے کہ لفظ رحمن اللہ کے ساتھ مخصوص ہے اور رحیم اللہ تعالیٰ کے ساتھ مخصوص نہیں ، قرآن کریم میں رحیم کا اطلاق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں بھی آیا ہے . ’’كما قال تعالىبالمؤمِنِينَ رَءُوفٌ رَحِيم‘‘ پس’’ رحمن‘‘ کے معنی ایسا انعام کرنے والا کہ کوئی اس جیسا انعام نه کر سکے اور یہ معنی حق تعالیٰ کے ساتھ مخصوص ہیں اور ’’رحیم‘‘ مطلق منعم کو کہتے ہیں خواہ دوسرا اس جیسا انعام کر سکے یا نہ کر سکے ۔"
(سورۃ فاتحہ، ج: 1، ص: 9، ط: مکتبۃ المعارف،از مولانا ادریس کاندھلویؒ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101910
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن