بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر مسلم کے لیے ہدایت کی دعا


سوال

دعا براۓ ہدایت غیر مسلم کیسی ہے ؟ 

جواب

کسی غیر مسلم کی ہدایت اور اس کے دینِ اسلام قبول کرنے کی بے لوث تمنا کرنا اور اس کے لیے فکرمند ہونا اچھا جذبہ اور مستحسن عمل ہے،  نیز غیر مسلم کے لیے ہدایت کی دعا مانگنا جائز ہے، رسول کریم ﷺسے کئی غیر مسلم افراد اور قبائل کے لیے  ہدایت کی دعا کرنا ثابت ہے۔

بخاری شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه قدم الطفيل بن عمرو على رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله إن دوسا قد عصت وأبت فادع الله عليها فظن الناس أنه يدعو عليهم فقال اللهم اهد دوسا وأت بهم."

(جلد8، ص:84، ط:دار طوق النجاۃ)

سنن ابن ماجہ میں ہے:

"عن عائشة، قالت: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "اللهم أعز الإسلام بعمر بن الخطاب خاصة."

(جلد1 ص:77،ط: دار الرسالۃ العالمیۃ)

الموسوعۃ الفقہیہ الکویتیہ میں ہے:

"قال النووي: اعلم أنه لا يجوز أن يدعى له (أي الذمي) بالمغفرة وما أشبهها مما لا يقال للكفار، لكن يجوز أن يدعى له بالهداية وصحة البدن والعافية وشبه ذلك. لما روي عن أنس - رضي الله عنه - قال: استسقى النبي صلى الله عليه وسلم فسقاه يهودي، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: جملك الله فما رأى الشيب حتى مات."

(حرف الدال، الدعاء، الدعاء للذمي إذا فعل معروفاّ، ج: 20، ص: 267، ط: دار السلاسل الكويت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144405100141

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں