بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیرملکی کرنسی خرید کر ذخیرہ کرکے قیمت بڑھ جانے پر فروخت کرنے کا حکم


سوال

میرے پاس کچھ زائد رقم ہے جس سے میں کوئی غیر ملکی کرنسی لینا چاہتا ہوں کہ جس  کولے کر میں رکھ لوں، اور جب ریٹ بڑھ جائے تو  اس کو بیچ کر منافع حاصل کروں، کیا ایسا کرنا درست ہے؟ اگر درست نہیں تو اس کی کوئی جائز صورت ہو تو بھی بتائیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں غیرملکی کرنسی خرید کر ریٹ بڑھ جانے کی صورت میں اگر اس کا تبادلہ  دوسرے غیرملکی  کرنسی کے ساتھ نقد کے ساتھ  کیا جائے تو  درست ہے،اور منافع بھی جائز ہے۔

فتاویٰ شامی (الدر المختار ورد المحتار) میں ہے:

"شرعا (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنسا بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة (ويشترط)...(والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق) وهو شرط بقائه صحيحا على الصحيح (إن اتحد جنسا وإن) وصلية (اختلفا جودة وصياغة) لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا(شرط التقابض) لحرمة النساء (فلو باع) النقدين (أحدهما بالآخر جزافا أو بفضل وتقابضا فيه) أي المجلس صح...

(قوله: فلو باع النقدين) تفريع على قوله وإلا شرط التقابض فإنه يفهم منه أنه لا يشترط التماثل، وقيد بالنقدين؛ لأنه لو باع فضة بفلوس فإنه يشترط قبض أحد البدلين قبل الافتراق لا قبضهما كما في البحر عن الذخيرة. ونقل في النهر عن فتاوى قارئ الهداية أنه لا يصح تأجيل أحدهما ثم أجاب عنه، وقدمنا ذلك في باب الربا، وقدمنا هناك أنه أحد قولين فراجعه عند قول المصنف باع فلوسا بمثلها أو بدراهم إلخ. (قوله: أحدهما بالآخر) احتراز عما لو باع الجنس بالجنس جزافا حيث لم يصح ما لم يعلم التساوي قبل الافتراق كما قدمناه.

(قوله: جزافا) أي بدون معرفة قدر، وقوله أو بفضل: أي بتحقق زيادة أحدهما على الآخر وسكت عن التساوي للعلم بصحته بالأولى".

(کتاب البیوع، باب الصرف، ج:، ص:، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101073

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں