بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر ملکی کرنسی کی خرید و فروخت کا حکم


سوال

غیر ملکی کرنسی کی خرید و فروخت کا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کرنسی کی خرید و فروخت جائز ہے، لیکن چوں کہ   ایک ملک کی کرنسی ایک جنس کے حکم میں ہے اور  مختلف ممالک کی کرنسیاں مختلف جنس کے حکم میں ہیں، اس لیے کرنسی کی خرید و فروخت کے معاملے میں دیکھا جائے گا کہ جن دو کرنسیوں کا آپس میں تبادلہ کیا جارہا ہے وہ دونوں ایک ہی جنس کی کرنسی ہے، ( مثلاً پاکستانی روپے کے بدلے میں پاکستانی روپے) تو اس صورت میں کمی بیشی کرنا یا ادھار فروخت کرنا جائز نہیں ہوگا، (یعنی نہ تو ادھار جائز ہوگا، اور نہ ہی کمی بیشی کرنا) البتہ اگر دونوں جانب کی کرنسی آپس میں ایک ہی جنس کی نہ ہو، (مثلاً روپے کے بدلے ڈالر یا ریال) تو اس صورت میں کرنسی کی خرید و فروخت میں کمی بیشی کرنا تو جائز ہوگا، البتہ ادھار کر کے بیچنا جائز نہیں ہوگا، بلکہ مجلسِ عقد میں دونوں طرف سے کرنسی پر قبضہ کرنا لازم ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (5/ 257):

"(هو) لغةً: الزيادة.وشرعاً: (بيع الثمن بالثمن) أي ما خلق للثمنية ومنه المصوغ (جنساً بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة، (ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزناً، (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق)، وهو شرط بقائه صحيحاً على الصحيح، (إن اتحد جنساً وإن) وصلية (اختلفا جودةً وصياغةً) ؛ لما مر في الربا (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء، (فلو باع) النقدين (أحدهما بالآخر جزافاً أو بفضل وتقابضا فيه) أي المجلس (صح)".

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144111200019

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں