بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خاندانی شادی کی صورت میں بیماری بڑھنے سے کیا غیرخاندان میں شادی کرنا توکل کے خلاف ہے؟


سوال

 نسل در نسل کزن کی شادیوں کی وجہ سے ایک مخصوص خاندان میں جینیاتی بیماری کی طبی تاریخ موجود ہے،  ڈاکٹروں نے یہ بھی کہا کہ خاندان کے اندر شادیاں بند کردیں، تاکہ اگلی نسل میں ان جینیاتی بیماریوں کی منتقلی کو روکا جاسکے۔ لیکن اس شخص کے والدین کہہ رہے ہیں کہ اپنی فرسٹ کزن سے شادی کرو اور اللہ پر بھروسہ کرو کیونکہ صحت مند اولاد کے امکانات ہیں،  اسلام کے مطابق اس سلسلے میں کیا کرنا چاہیے (قرآن کی آیات یا حدیث کا حوالہ)؟ اسلام کی روشنی میں کون سا طریقہ بہتر ہے؟ کیا مذکورہ شخص کو دوبارہ خاندان کے اندر شادی کرنی چاہیےبغیر احتیاط کے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرکے، یا  اسے احتیاط کرکےخاندان سے باہر شادی کے دیگر آپشنز پر غور کرنا چاہیے؟  کیا بچے کو کسی بھی قیمت پر والدین کی بات ماننی چاہیے کہ آیا اس سے اگلی نسل میں صحت کی خرابی پیدا ہو سکتی ہے؟ برائے مہربانی قرآن و حدیث کے حوالہ جات دے کر جواب دیں تاکہ متاثرہ شخص پورے خاندان کو اس صورت حال میں کزن کی شادی کو روکنے کے لیے قائل کر سکے۔ اس سلسلے میں رہنمائی کی بہت ضرورت ہے۔

جواب

واضح رہےاللہ تعالیٰ پر توکل یعنی بھروسہ کرنا انبیاءِ کرام علیہم السلام کے طریقہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا حکم بھی ہے، قرآن و حدیث میں توکل علیٰ اللہ کا بار بار حکم دیا گیا ہے،جیسے کہ  قرآن مجید میں ایک جگہ ارشاد ہے:

"قل لن يصيبنا إلا ما كتب الله لنا هو مولانا وعلى الله فليتوكل المؤمنونً"

"ترجمہ: آپ فرمادیجیےہم پر کوئی حادثہ نہیں پڑسکتا مگر وہی جو اللہ تعالیٰ  نے ہمارے لئے مقدر فرمایا ہے، اوریہ  کہ اللہ پر ایمان لانے والوں کو صرف اللہ ہی کی ذات پر بھروسہ کرنا چاہیے۔"

(سورۃ التوبۃ، رقم الآیۃ:51، ترجمہ:بیان القرآن)

 اس اعتبار سے توکل کا معنی ہے: اللہ تعالی کی  ذات پر مکمل بھروسہ و اعتماد کرنا اور اس یقین کے ساتھ اسباب اختیار کرنا کہ دنیوی و اُخروی تمام معاملات میں نفع و نقصان کی مالک صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے،  ہر چھوٹی بڑی چیز اپنے وجود اور بقا کے لیے اللہ کی محتاج ہے، اللہ تعالی کے منشاء کے بغیر کوئی کام نہیں ہوسکتا، اگر کوئی شخص بیمار ہوجائے تو اُسے مرض سے شفایابی کے لیے دوا کا استعمال تو کرنا ہے، لیکن اس یقین کے ساتھ کہ جب تک اللہ تعالیٰ شفا نہیں دے گا، دَوا اَثر نہیں کرسکتی۔ یعنی دنیاوی اسباب کو اختیار کرنا توکل کے خلاف نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کا نظام یہی ہے کہ بندہ دنیاوی اسباب اختیار کرکے اللہ تعالیٰ کی ذات پر پورا بھروسا کرے، یعنی یہ یقین رکھے کہ جب تک حکم خداوندی نہیں ہوگا، اسباب اختیار کرنے کے باوجود شفا نہیں مل سکتی۔ غرض یہ ہے کہ اسباب اختیار کرنے کے ساتھ  اللہ تعالی پر بھروسہ کرنے کا حکم دیاگیا ہے، جیسے کہ درجِ ذیل   حدیث شریف میں مروی ہے:

"حدثنا عمرو بن علي حدثنا يحيى بن سعيد القطان حدثنا المغيرة بن أبي قرة السدوسي قال سمعت أنس بن مالك يقول : قال رجل يا رسول الله أعقلها وأتوكل أو اطلقها وأتوكل ؟ قال اعقلها وتوكل".

(سنن الترمذی، باب صفۃ القیامۃ، رقم الحدیث:2517، ج:4، ص:668، ط:داراحیاء التراث العربی)

"ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: کیا اونٹنی کو باندھ کر توکل کروں یا بغیر باندھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: باندھو اور اللہ پر بھروسہ کرو۔"

حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالی پر بھروسہ کرنے کے ساتھ ساتھ بیماری کا علاج کرنےکا حکم بھی  دیاہے، جیسے حدیث شریف میں ہے:

" عن جابر، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: «لكل داء دواء، فإذا أصيب دواء الداء برأ بإذن الله عز وجل".

(صحيح مسلم،کتاب السلام، باب لكل داء دواء واستحباب التداوي، رقم الحدیث:69، ج:4، ص:1729، ط:داراحیاء التراث العربی)

"حضرت جابر رضی اللہ عنہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا :کہ ہر بیماری کی دوا ہے، جب بیماری کو اس کی اصل دوا میسر ہوجائے تو انسان اللہ کے حکم سے شفایاب ہوجاتا ہے۔"

اسی کے ساتھ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مہلک امراض سے بچاؤکے لیے حفاظتی تدابیر اختیار کرنے کی تعلیم بھی فرمائی ہے، جیسے کہ مروی ہے:

"عن عامر بن سعد بن أبي وقاص، عن أبيه، أنه سمعه يسأل أسامة بن زيد: ماذا سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم في الطاعون؟ فقال أسامة: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الطاعون رجز أو عذاب أرسل على بني إسرائيل أو على من كان قبلكم، فإذا سمعتم به بأرض، فلا تقدموا عليه، وإذا وقع بأرض وأنتم بها، فلا تخرجوا فرارا منه» وقال أبو النضر: «لا يخرجكم إلا فرار منه".

(صحيح مسلم،کتاب السلام، باب الطاعون، رقم الحدیث:92، ج:4، ص:1737، ط:داراحیاء التراث العربی)

"ترجمہ: حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:طاعون ایک صورتِ عذاب ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے تم سے پہلی امّتوں یا بنی اسرائیل پر مسلط فرمایا، سو جب کسی جگہ یہ بیماری پھیل جائے، تو وہاں کے لوگ اس بستی سے باہر نہ جائیں اور جو اس بستی سے باہر ہیں، وہ اس میں داخل نہ ہوں۔"

بہرحال کسی بھی متعدی وبا سے بچنے کے لیے جائز حفاظتی تدابیر اختیار کرنا چاہیے اور جائز حفاظتی تدابیر کا اختیار کرنا توکل اور تقدیر پر ایمان کے منافی نہیں ہے، بلکہ توکّل کی حقیقت یہی ہے کہ اسباب کو اختیار کیا جائے، لیکن اَسباب کو موثِّر بِالذّات ماننے کے بجائے خداوندِ مسبّب الاسباب پر ایمان رکھا جائے، کیوں کہ اسباب میں تاثیر اسی نے پیدا کی ہے اور اسی کے حکم سے یہ مؤثر ہوتے ہیں، تقدیر پر ایمان کا تقاضا بھی یہی ہے، حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف احادیث میں تعلیم دی ہے کہ ان بیماریوں کو مؤثر بالذات نہ سمجھاجائے، بلکہ مؤثر بالذات اللہ تعالی کی ذات ہے۔

صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃً خاندانی شادی میں مذکورہ بیماریاں بڑھنے کا یقین ہے، جس کی مختلف طبیبوں نے بھی تصدیق کی ہے تو بڑوں کو حکمت ومصلحت سے سمجھاکر خاندان سے باہر شادی کرنی چاہیے، اور احتیاط کا یہ عمل توکل کے خلاف بھی نہیں ہوگا۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144410100354

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں