بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

قربانی میں ایک حصہ پورے گھر والوں کی طرف سے کافی نہیں


سوال

ایک باپ ہے اسکے 5 بیٹے ہیں سب گھرمیں شریک ہیں اوران بیٹوں میں 2دو بیٹے خوب کماتے ہیں۔لیکن باقی بیٹے بھی تھوڑابہت کماکر باپ کو دیتے ہیں۔اب قربانی صرف باپ پر ہے یا بیٹوں پربھی قربانی واجب ہیں؟ کسی سے سنا ہے کہ جب سب مشترک ہو۔اور الگ نہ ہوے ہو تو بیٹوں کا مال باپ کا ہوتا ہے اس لیے صرف پورے گھر میں باپ کی قربانی کافی ہے۔

جواب

صورت مسؤلہ میں  گھر میں موجود ہر ہر صاحبِ نصاب عاقل بالغ مرد و عورت  کے ذمہ  قربانی کرنا واجب ہے ، اگر اس گھر میں ایک سے زائد لوگ جیسے والد اور دیگر بیٹےیا انکی بیویاں صاحبِ نصاب  ہوں تو ایک  قربانی سارے گھر والوں کی طرف سے کافی نہیں ہوگی، بلکہ گھر میں رہنے والے ہر صاحبِ نصاب شخص پر الگ الگ قربانی کرنا لازم ہوگی، کیوں کہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص صاحبِ حیثیت ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے، اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ ہر صاحبِ نصاب پر مستقل علیحدہ قربانی کرنا واجب ہے۔ دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ قربانی ایک عبادت ہے، لہٰذا دیگر عبادات (نماز ، روزہ، حج، زکاۃ ) کی طرح قربانی بھی ہر مکلف کے ذمہ الگ الگ واجب ہوگی۔ اس کے علاوہ رسول اللہ ﷺ کا عمل مبارک بھی یہ تھا کہ آپ ﷺ اپنی قربانی الگ فرمایا کرتے تھے اور ازواجِ مطہرات کی طرف سے الگ قربانی فرمایا کرتے تھے، اور آپ ﷺ کی صاحب زادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی قربانی مستقل طور پر ہوتی تھی، چنانچہ اس سے بھی پتا چلتا ہے کہ ایک قربانی سارے گھر والوں کی طرف سے کافی نہیں ہے۔

احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں۔

"عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من كان له سعة، ولم يضح، فلا يقربن مصلانا»".

(سنن ابن ماجه ، کتاب الاضحیۃ۔2/ 1044)

عن ابن عباس، قال: «كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، فحضر الأضحى، فاشتركنا في الجزور، عن عشرة، والبقرة، عن سبعة»".

(سنن ابن ماجه ، کتاب الاضحیۃ۔2/ 1047)

" عن أبي هريرة، قال: «ذبح رسول الله صلى الله عليه وسلم، عمن اعتمر من نسائه في حجة الوداع بقرة بينهن»".

(سنن ابن ماجه ، کتاب الاضحیۃ۔2/ 1047)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وأما قدره فلا يجوز الشاة والمعز إلا عن واحد وإن كانت عظيمةً سمينةً تساوي شاتين مما يجوز أن يضحى بهما؛ لأن القياس في الإبل والبقر أن لايجوز فيهما الاشتراك؛ لأن القربة في هذا الباب إراقة الدم وأنها لا تحتمل التجزئة؛ لأنها ذبح واحد، وإنما عرفنا جواز ذلك بالخبر فبقي الأمر في الغنم على أصل القياس.

( کتاب الاضحیۃ۔5/ 70 ، ط: بیروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311101834

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں