بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 ذو القعدة 1445ھ 21 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غیرحاضری پر مالی جرمانہ لینا


سوال

 ہم جانتے ہیں کہ مالى جرمانہ جائز نہیں تو كيا اگر کوئی طالب غیر حاضر رہا تو اس كو سزا دينے کے لئے یہ طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے کہ اسكول/مدرسہ کی طرف سے معين کاغذ اسكول/مدرسہ سے خريد کر اس معين كاغذ میں درس میں بيٹھنے كى اجازت كے لئے درخواست لکھے اور اس كاغذ کی قیمت كے بارے میں دو صورتیں ہیں:

پہلی صورت یہ ہے کہ  كاغذ ايك ہى ہے لیکن اس کی قیمت مختلف ہوگی ،مثلاً اگر ايک دن غير حاضر رہا تو ايک سو روپے، دو دن غیر حاضری ہے تو دو سو روپے ہوں ،اور اسی حساب سےجتنے دن غیر حاضری ہوگی،اس کے حساب سے اُسی کاغذ کی قمیت مہنگی ہوگی۔

  دوسری: کاغذ بھی مختلف اور قیمت بھی مختلف ہے،یعنی ہر دن کی غیرحاضری کا کاغذ الگ ہے اور قیمت بھی مختلف ہے۔

جواب

واضح رہے کہ طلبہ سے غیرحاضری پر مالی جرمانہ لینا جائز نہیں ،کیوں کہ یہ تعزیر بالمال ہے ،اور تعزیر بالمال ناجائز ہے،اسی طرح وہ تمام حیلے جن کا مقصد صرف مالی جرمانہ لگانا ہوں اگرچہ جرمانہ لگانے کے طریقے مختلف ہوں ناجائز ہے۔

صورتِ مسئولہ میں مدرسہ اور اسکول میں طلبہ کے غیرحاضر ہونے کے بعد درس گاہ میں بیٹھنے کے لیے ایک معمولی کاغذ کو غیرحاضری کے اعتبار سے اتنا ہی مہنگا کر بیچنے کا مقصد صرف مالی جرمانہ ہے،لہذا مدرسہ اور اسکول والوں کا اس طرح کرنا جائز نہیں ہے،چاہے ایک ہی کاغذ کو غیرحاضری کے اعتبار سے مہنگا کرکے دیا جائے یا مختلف کاغذ کی مختلف قیمت ہو ،بہر صورت اس طرح کرنا جائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"مطلب في التعزير بأخذ المال (‌قوله ‌لا ‌بأخذ ‌مال ‌في ‌المذهب) قال في الفتح : وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال، وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز، ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف، قال في الشرنبلالية : ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه، ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان......... وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ، و الحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال".

(کتاب الحدود، باب التعزیز، ج: 4، ص: 62، ط: سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101050

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں