بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر فطری طریقہ سے مادہ منویہ بیوی کے رحم میں پہنچانے کا حکم


سوال

میرے ہاں پہلے دو بیٹیوں کی پیدائش ہوئی جو کہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں ،اس کے بعد میری بیوی کو ایک دفعہ حمل ٹھہرا لیکن بچے کی پیدائش وقت سے پہلے ہوجانے کی وجہ سے بچی وفات پاگئی۔ اب اس کے بعد پانچ سال گزر گئے ہیں میری بیوی کو حمل نہیں ہوسکا۔ہم نے ڈاکٹر حضرات کو چیک کروایا تو انہوں نے معائنے کے بعد یہ بتایا کہ اب قدرتی طور پر مادہ منویہ رحم تک نہیں پہنچ رہا؛  لہذا میرا مادہ منویہ لے کر میری ہی بیوی کے رحم میں پہنچانے کے لیے مصنوعی طریقہ کار کو اختیار کیا جائے تو حمل ٹھہر سکتا ہے ۔  اب میرے دو سوال ہیں:

  1. میری چوں کہ پہلے سے دو بیٹیاں موجود ہیں، کیا میرے لیے اس طریقہ علاج کو اختیار کرنا جائز ہے؟ جب کہ مزید اولاد کی اور خاص طور پر نرینہ اولاد کی شدید خواہش ہے۔
  2. ڈاکٹر حضرات کا کہنا ہے کہ اگر آپ بیٹا چاہتے ہیں تو یہ بھی ممکن ہے ،کیوں کہ اس کا بھی طریقہ کار طبی طور پر آچکا ہے جو بیٹے والے کروموسوم ہوتے ہیں ان کو ایکٹیو کرکے یہ ممکن ہوجاتا ہے کہ بیٹا پیدا ہو،  کیا اس طرح بچے کی جنس طے کرنا جائز ہوگا؟ 

جواب

1، 2. مصنوعی یا غیر فطری طریقہ سے مادہ منویہ بیوی کے رحم تک پہنچانے میں شرعاً کئی مفاسد ہیں، مثلاً منی کے حصول کے لیے مشت زنی کرنا، اجنبی مرد یا عورت کے ذریعہ منی رحم تک پہنچانا اور ان کے سامنے ستر کھولنا اور چھونا، وغیرہ؛  لہٰذا اولاد کے حصول کے لیے یہ طریقہ اختیار کرنا شرعًا درست نہیں ہے، چاہے پہلے سے اولاد موجود ہو یا نہ ہو۔ اگر مذکورہ عمل شوہر  سیکھ کر خود کرے اور اس عمل کے دوران کسی تیسرے فرد کا کردار نہ ہو، دونوں میں سے کسی کو کسی اور کے سامنے ستر نہ کھولنا پڑے تو اس کی اجازت ہوگی، لیکن چوں کہ ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعے اولاد کے حصول میں  مذکورہ بالا مفاسد سے بچنا تقریبًا ناممکن ہے؛ لہٰذا اس کی اجازت نہیں ہوگی۔ شریعت نے  مرد کو  بشرطِ استطاعت چار شادیوں تک اجازت دی ہے، اگر پہلی بیوی میں کوئی بیماری ہے جس کی وجہ سے حمل نہیں ٹھہر سکتا تو اولاد کے حصول کے لیے دوسری شادی کی جاسکتی ہے۔

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل فتاویٰ ملاحظہ کرسکتے ہیں:

ٹیسٹ ٹیوب بے بی کا شرعی حکم

ٹیسٹ ٹیوب کے ذریعہ سے اولاد حاصل کرنے کا حکم

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144111200760

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں