بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر عالم اور غیر حافظ کو مستقل امام بنانا/ بریلوی مسلک کے امام کی اقتدا


سوال

1:ایسا بندہ جو نہ تو عالم دین ہو،نہ حافظِ  قران ہو اور نہ قاری ہو، اس  کے پیچھے مستقل طورپرباجماعت نماز ہوتی ہے؟

2:دیوبندیوں کی کسی بریلی امام کے پیچھے باجماعت نماز ہوتی ہے؟

جواب

1- صورتِ  مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص باشرع اور دین دار ہے، اور  قرآن کو درست تلفظ کے ساتھ پڑھ سکتا ہے تو  اس کے پیچھے نماز ادا کرنا جائز ہے، اگرچہ وہ حافظِ  قرآن   اور عالم نہ ہو، لیکن اگر وہ  قرآن ہی درست تلفظ  کے ساتھ ادا نہیں کرسکتا اور  ادائیگی میں ہی غلطیاں کرتا ہے   تو اس کی جگہ کسی  عالم یا  اچھے قرآن پڑھنے  والے قاری کو امام بنانا چاہیے۔ البتہ  بہر صورت  مستقل امام ایسے شخص کو بنانا چاہیے جو نیک، صالح، عالمِ دین اور اچھا قرآن پڑھنے والا ہو، اور اگر  عالم  نہ مل سکے تو  پھر  نیک، صالح اور  اچھا قرآن پڑھنے والا ہو اور اسے قرآنِ پاک کی اتنی مقدار یاد ہو کہ وہ تمام نمازوں (بشمول فجر) میں مسنون قراءت کرسکے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 557):

"(و الأحق بالإمامة) تقديما بل نصبا مجمع الأنهر (الأعلم بأحكام الصلاة) فقط صحة وفسادا بشرط اجتنابه للفواحش الظاهرة، وحفظه قدر فرض، وقيل واجب، وقيل سنة (ثم الأحسن تلاوة) وتجويدا (للقراءة، ثم الأورع) أي الأكثر اتقاء للشبهات. والتقوى: اتقاء المحرمات (ثم الأسن) أي الأقدم إسلاما، فيقدم شاب على شيخ أسلم، وقالوا: يقدم الأقدم ورعا. وفي النهر عن الزاد: وعليه يقاس سائر الخصال، فيقال: يقدم أقدمهم علما ونحوه، وحينئذ فقلما يحتاج للقرعة (ثم الأحسن خلقا) بالضم ألفة بالناس"  

2-  بریلوی مسلک  کے امام کی اقتدا میں نماز ادا کرنا مکروہِ تحریمی ہے، صحیح العقیدہ  امام مل جائے تو ایسے  امام کی اقتدا میں نماز نہیں پڑھنی چاہیے، اور اگر صحیح العقیدہ امام نہ ملے تو مجبوراً ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھ لے ، جماعت نہ چھوڑے ، اور اس نماز کے اعادہ کی ضرورت بھی نہیں ہوگی،  البتہ متقی پرہیزگار  کے پیچھے نماز پڑھنے سے جتنا ثواب ملتا ہے  اتنا ثواب نہیں ملے گا، لہذا  متبعِ سنت امام کے  پیچھے نماز پڑھنے کی کوشش کریں ، اگر دور ہونے کی وجہ سے ہر نماز کے لیے جانے میں دشواری  ہو تو مجبوری میں ایسے امام کی اقتدا  میں نماز ادا کرنا جائز ہوگا۔

لیکن اگر کسی  امام کے متعلق یقین سے معلوم ہوکہ وہ بلاتاویل شرکیہ عقائد میں مبتلا ہے تو  ایسے امام کے عقیدے کا علم ہونے کے باوجود اس کی اقتدا میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے، پڑھنے کی صورت میں اعادہ لازم ہوگا۔ البتہ جب تک کسی بریلوی کے متعلق یقین نہ ہو کہ اس کا عقیدہ شرکیہ ہے تو اس کی اقتدا میں نماز پڑھنے کی صورت میں اعادہ لازم نہیں ہوگا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200248

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں