بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

غير مسلموں كی تقريب ميں شرکت كا حكم


سوال

اگر کوئی مسلمان کسی دوسرے مذہب کے تہوار میں شرکت کرے،اور  کرسمس کیک کاٹے، کیا اس کا یہ عمل کفریہ ہے؟ یا وہ کافر ہو جاتا ہے؟ مطلب وہ  ایمان سے خارج ہو جاتا ہے؟ 

جواب

واضح رہے کہ غیر مسلموں کے مذہبی تہوار پر  ان کی  مجالس میں شرکت کرنا یا  اس کی تقریب منعقد کرنا  یا انہیں مبارکباد دینا وغیر ہ  شرعاً ممنوع اور ناجائز ہے، اس لیے کہ غیر مسلموں کے مذہبی تہوار ان کے مذہبی اعتقادات اور عبادات پر مبنی ہوتے ہیں اور اس  میں ان کے ساتھ شریک ہونا گویا کہ  ان کے مذہبی تہوار کی تعظیم اور ان کے مذہب سے تعلق  کا اظہار ہے، جبکہ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں غیر مسلموں کے اعتقادات و عبادات سے کلی طور پر لا تعلق رہنے کی تعلیم دی گئی ہے۔

لہذا صورت مسئولہ میں   کسی مسلمان کے لیے(کسی غیر مسلم مثلاً)  مسیحیوں  کی کرسمس  کی تقریب میں شریک ہونا اور کیک کاٹنے کی رسومات میں شامل ہوناشرعا جائز نہیں ہے ،تاہم اگر کوئی مسلمان ان کے عقائدِ باطلہ کی تائید اور ان پر رضامندی کے بغیر محض دنیوی تعلق کی بناء پر ان کی کسی تقریب میں شرکت کرتا ہے،تو (اگرچہ اسے نہیں کرنی چاہیے ،تاہم )اس کا یہ عمل کفر  یا اس سے وہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔

قرآن کریم میں باری تعالیٰ کا ارشاد ہے:

"فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ." ﴿الأنعام: ٦٨﴾

وفي أحكام القرآن للجصاص:

"قَالَ تَعَالَى: ﴿فَلا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ﴾ يَعْنِي: بَعْدَمَا تَذْكُرُ نَهْيَ اللَّهِ تَعَالَى لَا تَقْعُدْ مَعَ الظَّالِمِينَ. وَذَلِكَ عُمُومٌ فِي النَّهْيِ عَنْ مُجَالَسَةِ سَائِرِ الظَّالِمِينَ مِنْ أَهْلِ الشِّرْكِ وَأَهْلِ الْمِلَّةِ لِوُقُوعِ الِاسْمِ عَلَيْهِمْ جَمِيعًا، وَذَلِكَ إذَا كَانَ فِي ثِقَةٍ مِنْ تَغْيِيرِهِ بِيَدِهِ أَوْ بِلِسَانِهِ بَعْدَ قِيَامِ الْحُجَّةِ عَلَى الظَّالِمِينَ بِقُبْحِ مَا هُمْ عَلَيْهِ، فَغَيْرُ جَائِزٍ لِأَحَدٍ مُجَالَسَتُهُمْ مَعَ تَرْكِ النَّكِيرِ سَوَاءٌ كَانُوا مُظْهِرِينَ فِي تِلْكَ الْحَالِ لِلظُّلْمِ وَالْقَبَائِحِ أَوَغَيْرَ مُظْهِرِينَ لَهُ؛ لِأَنَّ النَّهْيَ عَامٌّ عَنْ مُجَالَسَةِ الظَّالِمِينَ؛ لِأَنَّ فِي مُجَالَسَتِهِمْ مُخْتَارًا مَعَ تَرْكِ النَّكِيرِ دَلَالَةً عَلَى الرِّضَا بِفِعْلِهِمْ وَنَظِيرُهُ قَوْله تَعَالَى: ﴿لُعِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ بَنِي إِسْرائيلَ﴾ [المائدة:78] الْآيَاتُ، وَقَدْ تَقَدَّمَ ذِكْرُ مَا رُوِيَ فِيهِ، وقَوْله تَعَالَى: ﴿وَلا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ﴾ [هود:113]".

( 3 / 3 , ط: العلمية)

البحر الرائق  میں ہے:

"قال - رحمه الله -: (والإعطاء باسم النيروز والمهرجان لايجوز) أي الهدايا باسم هذين اليومين حرام بل كفر، وقال أبو حفص الكبير - رحمه الله -: لو أن رجلاً عبد الله تعالى خمسين سنةً ثم جاء يوم النيروز وأهدى إلى بعض المشركين بيضةً يريد تعظيم ذلك اليوم فقد كفر وحبط عمله، وقال صاحب الجامع الأصغر: إذا أهدى يوم النيروز إلى مسلم آخر ولم يرد به تعظيم اليوم ولكن على ما اعتاده بعض الناس لايكفر، ولكن ينبغي له أن لايفعل ذلك في ذلك اليوم خاصةً ويفعله قبله أو بعده؛ لكي لايكون تشبيهاً بأولئك القوم، وقد قال صلى الله عليه وسلم: «من تشبه بقوم  فهو منهم». وقال في الجامع الأصغر: رجل اشترى يوم النيروز شيئاً يشتريه الكفرة منه وهو لم يكن يشتريه قبل ذلك إن أراد به تعظيم ذلك اليوم كما تعظمه المشركون كفر، وإن أراد الأكل والشرب والتنعم لايكفر".

(8 / 555،  مسائل متفرقه في الاکراہ، ط: دار الکتاب الاسلامي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ولو أهدي لمسلم ولم یرد تعظیم الیوم بل جري علي عادۃ الناس لایکفر وینبغي أن یفعله قبله أو بعده نفیًا للشبهة."

(شامی،ج:۶، ص:۷۵۴،ط:سعید) 

’’آپ کے مسائل اور ان کا حل‘‘ میں حضرت لدھیانی شہید رحمہ اللہ ا ک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:

’’سوال: کرسمس کے موقع پر ۲۵ دسمبر سے ایک دو دن قبل ہرسال دفتری اوقات میں عیسائی ملازمین کرسمس پارٹی کا بندوبست کرتے ہیں، جس میں ہم مسلمان لوگوں کو بھی اخلاقاً کھانے، کیک وغیرہ کھانا پڑتے ہیں، کیا مسلمان ملازمین کے لیے کرسمس پارٹی کے یہ کھانے وغیرہ کھانا صحیح ہے؟

جواب:جائز ہے۔‘‘

(ج:۲، ص:۱۳۱،ط:لدھیانوی)

‘‘ فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

’’سوال: اگر کسی مسلمان کے رشتہ دار ہندو کے گاؤں میں رہتے ہوں اور ہندو کے تہوار ہولی دیوالی وغیرہ پکوان، پوری، کچوری وغیرہ پکاتے ہیں، ان کا کھانا ہم لوگوں کو جائز ہے یا نہیں؟

جواب:جوکھانا کچوری وغیرہ ہندو کسی اپنے ملنے والے مسلمان کو دیںاس کا نہ لینا بہتر ہے، لیکن اگر کسی مصلحت سے لے لیا تو شرعاً اس کھانے کو حرام نہ کہا جائے گا۔‘‘

(جلد:8 ،صفحہ : 34، ط: فاروقیہ )

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144406100124

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں