بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غیر اسلامی نام/ معنی کے لحاظ سے نامناسب نام کو تبدیل کرنے کا حکم


سوال

بچپن میں ہی میرے بزرگوں نے میرا نام "ارون "رکھ دیا تھا، جب کے الحمدللہ میں مسلمان ہوں، اور میری نسبت اسلام سے ہے،چوں کہ" ارون "ایک غیر عربی اور عموماً غیر مسلموں کا نام ہے، نام تبدیل کرنے کے حوالے سے شریعت اور حدیث کی روشنی میں کیا  ہدایات ہیں ؟ اگر نام غیر اسلامی ہو اور فرد مسلمان ہو تو کیا تبدیلی کی جاسکتی ہے؟میں ارون نام کی جگہ "ہارون "نام رکھنا چاہتا ہوں ۔ 

جواب

شریعت میں نام رکھنے کے متعلق تفصیلی ہدایات ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:تم لوگ قیامت کے دن اپنے اور اپنے والد  کے نام  سے پکارے جاؤ گے؛ اس لیے اچھے نام رکھا کرو۔(1)

چنانچہ جو نام اپنے مفہوم کے لحاظ سے نامناسب ہوتے آپ انہیں تبدیل فرمادیتے تھے،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک صاحبزادی کا نام عاصیہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے بدل کر "جمیلہ" رکھا،(2)اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت  حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کی پیدائش کے وقت ان کا نام حرب  رکھنے کا ارادہ کیا تھا، جس کے معنی  "جنگ" کے  ہیں،  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے   ان کے نام حسن اور حسین  تجویز فرمائے۔ کتب حدیث میں اور بھی بہت سےناموں کا ذکر ہےجنہیں آپ ﷺ  نے تبدیل فرمایا۔(3)

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نام اچھے اور بامعنی رکھنے چاہییں،اور معنی کے اعتبار سے جو نام اچھے نہ ہوں ،انہیں تبدیل کردینا چاہیے، چونکہ ناموں کے ذریعہ انسان کے مذہب و عقیدہ کی بھی عکاسی ہوتی ہے،اس لیے نام میں اسلامی تشخص نمایاں ہونا چاہیے،لہذا  مسلمانوں کو غیر مسلموں والے نام رکھنا درست نہیں  ، علامہ شامی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ  جن ناموں کا کتاب اللہ    اور حدیث میں ذکر نہیں ملتا،اور نہ  مسلمانوں میں معروف ہیں راجح یہ  ہےکہ ایسے نام نہ رکھے جائیں،(4)

لہذا آپ  کو اپنے بزرگوں کا رکھا ہوا نام تبدیل کر لینا چاہیے،اور  "ہارون " نام رکھ سکتے ہیں،یہ اللہ کے نبی علیہ السلام کا نام ہے ،جس کا ذکر قرآن مجید میں بھی ہے۔

1۔سنن أبي داود میں ہے: 

"وحدثنا مسدد، حدثنا هشيم، عن داود بن عمرو، عن عبد الله بن أبي زكريا ‌عن ‌أبي ‌الدرداء، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إنكم تدعون يوم القيامة باسمائكم وأسماء آبائكم، فاحسنوا أسماءكم".

(كتاب الآداب،باب تغيير الاسماء،ج:7،ص:303،ط:دارالرسالة)

2۔سنن الترمذی میں ہے:

"عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة، «أن النبي صلى الله عليه وسلم ‌كان ‌يغير ‌الاسم القبيح."

"عن نافع، ‌عن ‌ابن ‌عمر، أن النبي صلى الله عليه وسلم غير اسم ‌عاصية وقال: «أنت جميلة."

(باب تغيير الاسماء،ج:5،ص:134،ط:البابي حلبي)

3۔الطبقات الکبری میں ہے:

"قال: أخبرنا يحيى بن عيسى الرَّمْلِيّ، عن الأعمش، عن سالم بن أبي الجعد، قال: قال ‌علي: كنت رجلًا أحب الحرب فلما ولد الحسن هممت أن أسميه حربًا فسماه رسول الله صلى الله عليه وسلم الحسن. قال: فلما ولد الحسين هممت أن أسميه حربًا لأني كنت أحب الحرب وسماه رسول الله صلى الله عليه وسلم الحسين وقال: إني سميت ابني هذين باسمي ابني هارون شَبَّرا وشَبِيْرا".

(باب تسمية النبي صلي الله عليه وسلم الحسن والحسين،ج:6،ص:356،ط:الخانجي)

4۔فتاوی شامی میں ہے:

«التسمية باسم لم يذكره الله تعالى في عبادة ولا ذكره رسوله صلى الله عليه وسلم ولا يستعمله ‌المسلمون تكلموا فيه، والأولى أن لا يفعل"

(كتاب الحظر والاباحة،ج:6،ص: 417،ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144504100586

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں