بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھیلا ہاتھ شرمگاہ پر لگنے کاحکم


سوال

کیا جیسا کہ پانی سے کسی ناپاکی کو دھونے سے وہ جگہ پاک ہو جاتی ہے بے شک بعد میں اس جگہ پر گیلا یا تر ہاتھ بھی لگے تو بھی ہاتھ پاک رہتا ہے ٹھیک ایسے ہی کیا تین مرتبہ tissue paper سے پیشاب صاف/خشک کرنے کے بعد جو کہ پیشاب ایک درہم سے کم ہو عضوخاص کی وہ جگہ پاک ہو جاتی ہے یا ناپاک رہتی ہے، کہ اگر بعد میں گیلا یا تر ہاتھ اس عضوخاص والی جگہ لگے اور وہ گیلا یا تر ہاتھ پانی کی بالٹی یا ڈرم میں موجود پانی پر لگے تو کیا یہ پاک شمار ہوگا یا ناپاک؟

جواب

صورت  مسئولہ میں  استنجا کرتے وقت   عام حالت میں جب پیشاب کے قطرے اپنی جگہ سے پھیلے نہ ہوں تو ٹشو پیپر سے استنجا کرنا درست ہے البتہ  اس کے بعد پانی سے بھی استنجاء کرنا  افضل اور بہتر ہے،  اگر پیشاب  کے  قطرے کچھ پھیل جائیں تو ٹشو کے استعمال کے بعد پانی سے دھونا ضروری ہے ،   عضو خاص   خشک ہو اور اس  پرگیلا ہاتھ لگ جائےتو جب تک ہاتھ پرنجاست کا اثر(بو،رنگ)ظاہر نہ ہوتو اس سے گیلا ہاتھ ناپاک نہیں ہوگا ۔

فتاوى  هندية  میں ہے :

" والاستنجاء بالماء أفضل إن أمكنه ذلك من غير كشف العورة وإن احتاج إلى كشف العورة يستنجي بالحجر ولا يستنجي بالماء. كذا في فتاوى قاضي خان والأفضل أن يجمع بينهما. كذا في التبيين قيل هو سنة في زماننا وقيل على الإطلاق وهو الصحيح وعليه الفتوى. كذا في السراج الوهاج. ثم الاستنجاء بالأحجار إنما يجوز إذا اقتصرت النجاسة على موضع الحدث فأما إذا تعدت موضعها بأن جاوزت الشرج أجمعوا على أن ما جاوز موضع الشرج من النجاسة إذا كانت أكثر من قدر الدرهم يفترض غسلها بالماء ولا يكفيها الإزالة بالأحجار وكذلك إذا أصاب طرف الإحليل من البول أكثر من قدر الدرهم يجب غسله ".

(کتاب الطہارۃ ، 1/ 48، دار الفکر)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله: نام) أي: فعرق، وقوله: أو مشى: أي: وقدمه مبتلة. (قوله: على نجاسة) أي: يابسة لما في متن الملتقى لو وضع ثوبا رطبا على ما طين بطين نجس جاف لا ينجس، قال الشارح: لأن بالجفاف تنجذب رطوبة الثوب من غير عكس بخلاف ما إذا كان الطين رطبا. اهـ. (قوله: إن ظهر عينها) المراد بالعين ما يشمل الأثر؛ لأنه دليل على وجودها لو عبر به كما في نور الإيضاح لكان أولى. (قوله: تنجس) أي: فيعتبر فيه القدر المانع كما مر في محله."

(‌‌كتاب الطہارة، ‌‌باب الأنجاس، ‌‌فصل الاستنجاء، ج:1، ص:346، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144506101153

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں