بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

گھی وغیرہ کو ذخیرہ کرنے کا حکم


سوال

میں نے مورخہ گیارہ جون 2023ء کوگھی کے پچیس کاٹن خریدے تھے، اورفی کاٹن گھی کی قیمت 5900 روپے تھی ، اب اس کی قیمت 5700 روپے ہے کیا میں اس کو اور دیر تک رکھ سکتا ہوں ،اگر رکھ سکتا ہوں تو کتنی دیر تک رکھ سکتا ہوں، جو ممنوعہ سٹاک (ذخیرہ اندوزی) میں نہ آتا ہوں؟

جواب

واضح رہے کہ جن چیزوں میں درج ذیل صفات پائی جائیں ان کی ذخیرہ اندوزی منع ہے:

(1) وہ چیز عرف عام میں انسان یا جانور کی غذا کے طور پر استعمال ہوتی ہو۔  (2) یہ اشیاء ایسے مقامات سے خریدی گئی ہوں جن  کی پیداوار اس شہر میں آتی ہو۔ (3) ان کو ذخیرہ کرنے میں شہر والوں کو نقصان پہنچتا ہو۔ 

چنانچہ مذکورہ بالا اشیاء میں سے کوئی ایسی چیز کی جس کی عام لوگوں کو ضرورت ہو اور اسے ذخیرہ کرنے کے نتیجے میں  وہ چیز آسانی سے نہ ملے اور عام لوگوں کو پریشانی لاحق ہو یا وہ اتنی مہنگی ہوجائے کہ عام لوگوں کے لیے عرفاً ضرر (نقصان) کا باعث ہو کہ عام لوگ اس کو پھر باآسانی خرید نہ سکتے ہوں ایسی صورت میں اس چیز کو ذخیرہ کرنا درست نہیں ہوگا۔

لہذا صورت مسئولہ میں سائل کے لیےگھی کے مذکورہ کاٹن قیمتِ فروخت کم ہونے کی وجہ سے سٹاک (ذخیرہ) کرنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے،اورجب تک  مارکیٹ میں گھی وغیرہ مناسب قیمت پر دستیاب ہےوہ گھی کے یہ کاٹن اپنے پاس ذخیرہ کرکے رکھ سکتا ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) كره (‌احتكار ‌قوت ‌البشر) كتبن وعنب ولوز (والبهائم) كتبن وقت (في بلد يضر بأهله) لحديث «الجالب مرزوق والمحتكر ملعون» فإن لم يضر لم يكره. 

وفي الرد: (قوله وكره احتكار قوت البشر) الاحتكار لغة: احتباس الشيء انتظارا لغلائه والاسم الحكرة بالضم والسكون كما في القاموس، وشرعا: اشتراء طعام ونحوه وحبسه إلى الغلاء أربعين يوما لقوله - عليه الصلاة والسلام - «من احتكر على المسلمين أربعين يوما ضربه الله بالجذام والإفلاس» وفي رواية «فقد برئ من الله وبرئ الله منه» قال في الكفاية: أي خذله والخذلان ترك النصرة عند الحاجة اهـ وفي أخرى «فعليه لعنة الله والملائكة والناس أجمعين لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا» الصرف: النفل، والعدل الفرض شرنبلالية عن الكافي وغيره وقيل شهرا وقيل أكثر وهذا التقدير للمعاقبة في الدنيا بنحو البيع وللتعزير لا للإثم لحصوله وإن قلت المدة وتفاوته بين تربصه لعزته أو للقحط والعياذ بالله تعالى در منتقى مزيدا، والتقييد بقوت البشر قول أبي حنيفة ومحمد وعليه الفتوى كذا في الكافي، وعن أبي يوسف كل ما أضر بالعامة حبسه، فهو احتكار وعن محمد الاحتكار في الثياب ابن كمال.

(قوله كتين وعنب ولوز) أي مما يقوم به بدنهم من الرزق ولو دخنا لا عسلا وسمنا در منتقى (قوله وقت) بالقاف والتاء المثناة من فوق الفصفصة بكسر الفاءين وهي الرطبة من علف الدواب اهـ ح وفي المغرب: القت اليابس من الإسفست اهـ ومثله في القاموس وقال في الفصفصة بالكسر هو نبات فارسيته إسفست تأمل (قوله في بلد) أو ما في حكمه كالرستاق والقرية قهستاني (قوله يضر بأهله) بأن كان البلد صغيرا هداية."

(كتاب الحظر والإباحة ، فصل في البيع ، ج:6، ص:398، ط:سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144412101313

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں