بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

غیبت کا گناہ اور تلافی کی صورت


سوال

میں نے پڑھائی کے دوران کسی ساتھی کی کسی کے پاس  برائی کردی تھی،  لیکن اس وقت یہ معلوم نہیں تھا کہ گناہ ہے، تو اب اس کی کیا تلافی ہے؟ میں ہر وقت یہی سوچتے رہتا ہوں کہیں میں گناہ گار تو نہیں؟  تھوڑی وضاحت فرمادیں!

جواب

  واضح رہے کہ کسی  شخص کی غیر موجودگی میں اس   کا ایسا تذکرہ کرنا جو اسےناگوار    لگے غیبت کہلاتاہے اور مسلمان کی غیبت کرنا بہت بڑا گناہ ہے، قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے غیبت کرنے کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا ہے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے مسلمان کی عزت پر حرف گیری کرنے کو بدترین سود قرار دیا ہے، نیز غیبت کو زنا سے بھی بدتر فرمایا گیا ہے۔ اس گناہ کی بہت سی وعیدیں احادیثِ مبارکہ میں موجود ہیں، اور عقلی طور پر بھی کسی کی برائی وبدخواہی، اور اس کی تحقیر جائز نہیں ہے، اور غیبت میں یہ  سب برائیاں پائی جاتی ہیں۔

اس کی تلافی کی صورت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے توبہ کرنے کے ساتھ  جس کی غیبت یا برائی کی ہے اگراس کے علم میں ہے اس بندے سے معافی مانگ لی جائے؛ کیوں کہ اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے، ہاں یہ ضروری نہیں ہے کہ اس کو پورا معاملہ بتایا جائے، بس عمومی انداز میں کہہ دیا جائے کہ اگر کبھی آپ کی حق تلفی ہوئی ہو  تو آپ معاف کردیں یا کوئی اور انداز اختیار کرلیں، الغرض دنیا میں اس  سے معاف کروالیں، اگر اس کا ملنا مشکل ہو تو اللہ سے معافی مانگنے کے ساتھ اس کے حق میں کثرت سے استغفار کریں اور اس کے لیے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ البتہ اگر جن لوگوں کی غیبت کی ہے،  انہیں غیبت کا علم نہ ہو تو ان سے معافی مانگنا شرعاً واجب نہیں، صرف اللہ پاک کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرنا اور ان کے لیے دعا اور استغفار کرنا بھی کافی ہوگا۔

مشکوٰۃ  المصابيح میں ہے: 

"وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن من ‌كفارة ‌الغيبة أن تستغفر لمن اغتبته تقول: اللهم اغفر لنا وله. رواه البيهقي في الدعوات الكبير".

(کتاب الآداب ،باب حفظ اللسان ،ج:2،ص:253،رقم :4877،ط:ا لبشریٰ)

فتاوٰی شامی میں ہے:

"وفيها: الغيبة أن تصف أخاك حال كونه غائبا بوصف يكرهه إذا سمعه. عن أبي هريرة - رضي الله عنه - قال قال - عليه الصلاة والسلام -، «أتدرون ما الغيبة؟ قالوا الله ورسوله أعلم قال: ذكرك أخاك بما يكره قيل: أفرأيت إن كان في أخي ما أقول؟ قال: إن كان فيه ما تقول اغتبته، وإن لم يكن فيه فقد بهته» وإذا لم تبلغه يكفيه الندم وإلا شرط بيان كل ما اغتابه به". 

(قوله: وإذا لم تبلغه إلخ) ليس هذا من الحديث بل كلام مستأنف.
قال بعض العلماء: إذا تاب المغتاب قبل وصولها تنفعه توبته بلا استحلال من صاحبه فإن بلغت إليه بعد توبته قيل: لاتبطل توبته، بل يغفر الله تعالى لهما جميعا للأول بالتوبة وللثاني لما لحقه من المشقة، وقيل بل توبته معلقة فإن مات الثاني قبل بلوغها إليه فتوبته صحيحة، وإن بلغته فلا بل لا بد من الاستحلال والاستغفار، ولو قال بهتانا فلا بد أيضا أن يرجع إلى من تكلم عندهم ويكذب نفسه وتمامه في تبيين المحارم (قوله: وإلا شرط بيان كل ما اغتابه به) أي مع الاستغفار والتوبة والمراد أن يبين له ذلك ويعتذر إليه ليسمح عنه بأن يبالغ في الثناء عليه والتودد إليه ويلازم ذلك حتى يطيب قلبه، وإن لم يطب قلبه كان اعتذاره وتودده حسنة يقابل بها سيئة الغيبة في الآخرة وعليه أن يخلص في الاعتذار، وإلا فهو ذنب آخر ويحتمل أن يبقى لخصمه عليه مطالبة في الآخرة، لأنه لو علم أنه غير مخلص لما رضي به.
قال الإمام الغزالي وغيره وقال أيضًا: فإن غاب أو مات فقد فات أمره، ولايدرك إلا بكثرة الحسنات لتؤخذ عوضا في القيامة، ويجب أن يفصل له إلا أن يكون التفصيل مضرًّا له كذكره عيوبًا يخفيها فإنه يستحل منها مبهمًا اهـ.
وقال منلا علي القاري في شرح المشكاة: وهل يكفيه أن يقول اغتبتك فاجعلني في حل أم لا بد أن يبين ما اغتاب قال بعض علمائنا في الغيبة إلا بعلمه بها، بل يستغفر الله له إن علم أن إعلامه يثير فتنة، ويدل عليه أن الإبراء عن الحقوق المجهولة جائز عندنا، والمستحب لصاحب الغيبة أن يبرئه عنها وفي القنية تصافح الخصمين لأجل العذر استحلال قال في النووي. ورأيت في فتاوى الطحاوي أنه يكفي الندم والاستغفار في الغيبة، وإن بلغت المغتاب ولا اعتبار بتحليل الورثة". 

(كتاب الأضحیة ،فصل في البیع ،ج:6،ص:410،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101214

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں